بھارت کرایوجینک راکٹ موٹرز بنانے والا چھٹا ملک
12 اپریل 2010یہ کرائیوجینک انجن بھارتی سائنسدانوں کی جانب سے تیار کیا گیا ہے۔ اب تک ایسے صرف چھ ممالک ہیں جوکرائیوجینک راکٹ انجن تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک بھارتی خلائی تحقیقی سائسندان کے مطابق بھارت ان ممالک میں اکتوبر 2006ء میں شامل ہوا تھا۔
جدید مواصلاتی سیارے کو خلا میں بھیجنے کے لئے جو راکٹ نظام یا Geosynchronous Satellite Launch Vehicle جسے مختصراﹰ GSLV استعمال کیا جائے گا اس میں کرائیوجینک انجن یا راکٹ موٹرز لگی ہوئی ہیں۔ کرائیوجینک راکٹ موٹرز میں بہت زیادہ ٹھنڈا یعنی سپر کُولڈ لیکوئڈ فیول استعمال کیا جاتا ہے۔
بھارتی خلائی تحقیقی ادارے انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن ISRO کے چیئرمین کے رادھاکشنن کے مطابق اسی انجن پر مشتمل راکٹ کے ذریعے 15 اپریل کو ایک مواصلاتی سیارہ خلا میں بھیجا جائے گا۔ رادھاکرشنن کے مطابق یہ راکٹ ریاست آندھرا پردیش میں سری ہری کوٹا کے مقام پر قائم خلائی اسٹیشن سے روانہ کیا جائے گا۔
بھارت کی جانب سے 15 اپریل کو اگر کامیابی سے اس مواصلاتی سیارے کو مدار میں پہنچا دیا جاتا ہے تو امریکہ، روس، فرانس، جاپان اور چین کے بعد بھارت چھٹا ملک بن جائے گا جو اس ٹیکنالوجی کے حامل انجن تیار کرچکے ہیں۔
سائنسدانوں کے مطابق اس کامیابی کے بعد بھارتی خلائی تحقیقی ادارہ ISRO مستقبل میں زیادہ بڑے سیٹلائٹ خلا میں پہنچا سکے گا۔
ISRO کے چیئرمین رادھا کرشنن نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ اس انجن پر 1994ء سے کام جاری تھا۔ جبکہ اس پر کل لاگت 75 ملین ڈالر کے قریب آئی ہے۔
امریکہ نے سال 1992ء میں روس کوکرایوجینک ٹیکنالوجی بھارت کو فراہم کرنے سے روک دیا گیا تھا کیونکہ واشنگٹن کا خیال تھا کہ بھارت اسے میزائل بنانےکے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ رادھا کرشنن کے مطابق ٹیکنالوجی کی فراہمی پر قدغن کو بھارت نے دراصل ایک چیلنج سمجھا اور ملکی سطح پراس ٹیکنالوجی کی تیاری میں کامیابی حاصل کی۔
بھارت نے اپنی خلائی پروگرام کی ابتدا سال 1963ء میں کی تھی۔ اس وقت ISRO نہ صرف اپنے مصنوعی سیارے تیار کررہا ہے بلکہ انہیں خلا میں پہنچانے والا نظام بھی خود ہی تیار کررہا ہے تاکہ اس سلسلے میں دوسرے ملکوں پرکم سے کم انحصار کیا جائے۔
بھارتی حکومت نے سال 2016ء میں پہلی انسان بردار پرواز خلا میں بھیجنے کے لئے 2.8 بلین ڈالرز کا بجٹ مختص کررکھا ہے۔
گزشتہ برس ستمبر میں بھارتی خلائی سیٹلائٹ چندریان ون نے چاند پر موجود برف کا کھوج لگایا تھا۔ جس سے بھارت کے خلائی پروگرام کو نہ صرف تقویت ملی بلکہ قابل بھروسہ خلائی ادارہ رکھنے والے ملک کے طور پر اس کے اعتماد میں اضافہ ہوا تھا۔
چندریان ون پر موجود امریکی خلائی تحقیقی مرکز ناسا کے راڈار Miniature Synthetic Aperture Radar جسے مختصراﹰ 'مِنی سار' Mini-SAR کا نام دیا جاتا ہے چاند کے شمالی قطب پر برف کے 40 سے زائد ذخیروں کا کھوج لگایا تھا جن کا قطر دوسے پندرہ کلومیٹر تک ہے۔
'منی سار' ان 11 مختلف آلات میں سے ایک تھا جو بھارتی خلائی جہاز چندریان میں چاند کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنےکے لئے موجود تھے۔ چندریان کواکتوبر 2008ء میں چاندکے مدار میں بھیجا گیا تھا۔ تاہم دوسال پر محیط یہ مشن اگست 2009ء میں مقررہ وقت سے قبل ہی اس وقت اختتام پزیر ہوگیا تھا جب چندریان سے زمینی اسٹیشن کا رابطہ منقطع ہوگیا۔ بھارتی خلائی تحقیقی ادارے کے مطابق اس کے باوجود بھی چندریان مشن کے 95 فیصد مقاصد پورے ہوگئے تھے۔
رپورٹ : افسر اعوان
ادارت : عدنان اسحاق