بھارت: کم ترقی یافتہ ملکوں کو راغب کرنے کی کوشش
24 فروری 2011بھارت نے اپنی اس نئی کوشش کے تحت پچھلے دنوں یہاں کم ترقی یافتہ ممالک (LDC)کا ایک اجلاس منعقد کیا، جو کم ترقی یافتہ ملکوں کا اب تک کا سب سے بڑا اجلاس تھا۔ 48 ممالک پر مشتمل ایل سی ڈی کے 40 ممالک نے اس میں شرکت کی۔ بھارت نے اس موقع پر کم ترقی یافتہ ملکوں کے لئے پانچ ملین امریکی ڈالر کے اسپیشل فنڈ اور 500 ملین ڈالر کی کریڈٹ لائن کے ساتھ ان میں سے ہر ملک کے لئے پانچ پانچ وظائف کا بھی اعلان کیا۔ بھارت نے ان ملکوں کی اقتصادی ترقی کے لئے ان کے یہاں سرمایہ کاری کا بھی وعدہ کیا۔
خیال رہے کہ یکم جنوری سے بھارت نے سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ برس یہا ں سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل اراکین امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور چین کے سربراہوں نے دورے کئے۔ اس نے مستقل رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کے تحت اس سال پہلے اقوام متحدہ میں بحیرہء کیریبین کے بارہ ملکوں کے مستقل نمائندوں کو یہاں مدعو کیا اور اپنی صنعتی اور اقتصادی ترقی کا مشاہدہ کرایا۔ اس کے بعد کم ترقی یافتہ ملکوں کی کانفرنس منعقد کی اور اب آئندہ مئی میں وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ افریقی ملکوں کا دورہ کرنے والے ہیں۔
خارجہ امور کے ماہر شاستری راما چندرن نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے اس نئی پیش رفت کے حوالے سے کہا کہ اگرچہ یہ کم ترقی یافتہ ممالک ہیں لیکن بھارت اچھی طرح سے جانتا ہے کہ اقوام متحدہ میں ووٹنگ کے معاملے میں ان کی کافی اہمیت ہے اور ان کا ووٹ بھی بڑے اور طاقتور ملکوں کے برابر ہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اقوام متحدہ میں کم ترقی یافتہ ملکوں کی تعداد مجموعی تعداد کا 25 فیصد ہے اور جس طرح سلامتی کونسل میں غیر مستقل رکن کی حیثیت حاصل کرنے کے لئے ان ملکوں کا تعاون بھارت کے لئے کافی اہم ثابت ہوا، اسی طرح جب کبھی مستقل رکنیت کے لئے ووٹنگ ہوگی، ان ملکوں کی حمایت کافی اہم ثابت ہوگی۔ شاستری راما چندرن کا تاہم خیال ہے کہ بھارت کو ان کم ترقی یافتہ ملکوں کی حیثیت میں جو ووٹ بینک ملا ہے، اسے برقرار رکھنا اس کے لئے ایک چیلنج ہوگا ۔
خیال رہے کہ افریقہ کے 33، ایشیا بحراکاہل کے 14 اور کیریبین اور لاطینی امریکہ کے ایک ایک ملک پر مشتمل کم ترقی یافتہ ممالک کو یہ شکایت رہی ہے کہ بین الاقوامی برداری ان پر خاطرخواہ توجہ نہیں دیتی ہے۔ جہاں 1971ء میں ایسے ملکوں کی تعداد 25 تھی، وہاں اس سال بڑھ کر 48 ہوگئی ہے۔ دوسری طرف یہ ممالک بھارت کے ساتھ اقتصادی تعاون اور دیگر باہمی معاہدے کرنے میں اپنے آپ کو زیادہ آرام دہ محسوس کرتے ہیں کیوں کہ بھارت انہیں مالی امداد دیتے وقت امریکہ اور یورپی یونین کی طرح حقوق انسانی، شہری آزادیوں اور جمہوریت کی بحالی جیسی شرطیں عائد نہیں کرتا۔
آج کل اقوام متحدہ میں اصلاحات کا معاملہ ایک اہم مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس مقصد کے لئے جو پانچ رکنی کمیٹی بنائی ہے، اس نے پانچ صفحات کا ایک مسودہ تیار کیا ہے۔ مبصرین کے مطابق بھارت کی نئی کوششوں کا مقصد یہی ہے کہ اگر اس مسودے کو ووٹنگ کے لئے لایا جائے تو اس کے حق میں ماحول پہلے سے تیار رہے۔اس دوران سفارتی ذرائع نے کہا ہے کہ بھارت اور گروپ جی فور کے دیگر ممالک یعنی جرمنی، برازیل اور جاپان کو اس تجویز پرکوئی اعتراض نہیں ہے کہ نئے مستقل اراکین کو پندرہ برس گزرنے کے بعد ہی ویٹو کا اختیار دیا جائے گا تاہم ان کا کہنا ہے کہ ویٹو پاور کے بغیر دوسرے درجے کا شہر ی بن کر رہنا انہیں قبول نہیں ہوگا۔
رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی
ادارت: امجد علی