بھارت کو ہندو ریاست بنانے کا اعلان کیا جائے، سنتوں کا مطالبہ
31 جنوری 2022ان سنتوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ہندوؤں کا 'احترام‘ نہ کرنے والے مسلمانوں کو پاکستان بھیج دینا چاہیے۔ دسمبر میں ہردوار میں منعقدہ متنازعہ دھرم سنسد (مذہبی پارلیمنٹ) کے بعد ہفتے کے روز اترپردیش کے مذہبی شہر پریاگ راج (سابقہ الہ آباد) میں دوسرا دھرم سنسد منعقد ہوا، جس میں پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں۔ اس اجلاس میں ہندوؤں کے مذہبی لحاظ سے انتہائی محترم سمجھے جانے والے متعدد 'مہامنڈلیشوروں‘ سمیت تقریباً 400 سرکردہ سنت شریک ہوئے۔
ہردوار دھرم سنسد میں مسلمانوں کی نسل کشی سمیت متعدد متنازعہ بیانات کی ملک کے اندر اور بیرون ملک سے بھی سخت مذمت کی گئی تھی۔ بھارتی سپریم کورٹ میں بھی اس حوالے سے ایک کیس زیر التوا ہے۔ سپریم کورٹ سے ایسے دھرم سنسد کے انعقاد کی اجازت نہ دینے کی اپیل کی گئی تھی۔ اس لیے منتظمین نے قانونی گرفت سے بچنے کی خاطر دھرم سنسد کے بجائے پریاگ راج میں منعقدہ اجلاس کو 'سنت سمیلن‘ کا نام دیا۔
سنت سمیلن میں کیا ہوا؟
دریائے گنگا، جمنا اور تصوراتی سرسوتی کے سنگم پر ہندو مذہبی رہنما جگت گرو سوامی نریندرانند سرسوتی کی صدارت میں منعقدہ سنت سمیلن میں منظور کردہ قراردادمیں کہا گیا کہ ہو سکتا ہے ملکی حکومت بھارت کو 'ہندو راشٹر‘ کہنے کا اعلان نہ کرے، تاہم تمام ہندوؤں کو بھارت کو ہندو راشٹر لکھنا اور بولنا شروع کردینا چاہیے۔ ''ایسا کرنے سے حکومت خود بخود اس ملک کے ہندو راشٹر ہونے کا اعلان کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔‘‘
ایک دوسری قرارداد میں تبدیلی مذہب کو ملک سے غداری اور ایسا کرنے میں ملوث پائے جانے والوں کے لیے سزائے موت کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
ہندو مذہبی رہنما پربودھانند نے اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو مسلمان ہندوؤ ں کا 'احترام‘ نہیں کرتے، انہیں پاکستان اور بنگلہ دیش بھیج دینا چاہیے۔
پربودھانند نے ہردوار کے دھرم سنسد میں بھی انتہائی اشتعال انگیز تقریر کرتے ہوئے 'مسلمانوں کے مسئلے کے حتمی حل‘ کے لیے روہنگیا باشندوں کے قتل عام جیسی کارروائی کا مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے بھارتی پولیس، فوج اور سیاست دانوں سے مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے متحد ہوجانے کی اپیل بھی کی تھی۔
سوامی نریندرانند سرسوتی نے ہندوؤں کو دیوی دیوتاؤں سے سبق لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی ہتھیار اٹھا لیں۔
مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید
پریاگ راج دھرم سنسد پر بھی ملک کے مختلف حلقوں نے سخت تنقید کی ہے۔ رکن پارلیمان اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے سنت سمیلن میں اشتعال انگیز تقریروں پرسیکولر جماعتوں کی خاموشی پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''پریاگ راج دھرم سنسد میں دارالعلوم دیوبند اور بریلی کے مدارس کو بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور وہاں موجود لوگوں نے انتہائی ذلت آمیز زبان استعمال کی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''کیا حکومت اس کے خلاف کوئی کارروائی کرے گی؟ کیا وزیر اعظم، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اور سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کچھ کہیں گے؟ کیا یہ ان کی بزدلی ہے یا انہوں نے کوئی سمجھوتہ کر لیا ہے؟‘‘
خیال رہے کہ ہردوار دھرم سنسد کے حوالے سے بی جے پی کے سینئر رہنما اور رکن پارلیمان پروفیسر راکیش سنہا نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کے لوگوں کی باتوں پر دھیان دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
شدت پسند ہندو رہنماؤں کا موازنہ بھگت سنگھ سے
ہردوار دھرم سنسد پر ہر طرف سے نکتہ چینی کے بعد حکومت نے چار افراد کو گرفتار کیا تھا۔ پریاگ راج دھرم سنسد میں منظور کردہ ایک قرارداد میں ان تمام افراد کی فوری رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ ان میں اسلام ترک کر کے ہندو مت اپنا لینے والے وسیم رضوی عرف جتندر تیاگی بھی شامل ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان افراد کو 'جانباز‘ قرار دیتے ہوئے ان کا موازنہ بھارت کی جنگ آزادی کی ایک اہم شخصیت بھگت سنگھ، جو خود کو سوشلسٹ اور ملحد کہتے تھے، سے کرتے ہوئے کہا گیا ہے، ''اگر حکومت ان کی رہائی میں تاخیر کرتی ہے، تو ہم بھگت سنگھ کے کارنامے کو دہرانے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
بھگت سنگھ نے سن 1929میں ایک برطانوی قانون کی مخالفت میں دہلی کی مرکزی قانون ساز اسمبلی میں بم پھینک دیا تھا۔
سنت سمیلن کے شرکاء نے ہندو خواتین سے پانچ پانچ بچے پیدا کرنے کی بھی اپیل کی۔