بھارت: کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن سے فاقہ کشی کا خطرہ
16 اپریل 2020کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر جاری لاک ڈاؤن میں اکیس اپریل سے جزوی نرمی کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اسی لیے مختلف علاقوں کو تین زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس دوران ماہرین اقتصادیات نے طویل لاک ڈاون کے نتیجے میں بھیانک نتائج کی وارننگ دی ہے۔
اس درجہ بندی کے تحت ممبئی، دہلی، کولکاتا، حیدرآباد، چینئی اور بنگلورو جیسے ملک کے چھ میٹروز اور دیگر بڑے شہروں سمیت تقریبا 170 اضلاع کو 'ہاٹ اسپاٹ' یعنی کورونا وائرس کی وبا کے لیے خطرناک مقامات قرار دیا گیا ہے۔
اس فہرست میں سری نگر، بانڈی پورہ، بارہ مولہ، جموں، ادھم پور اور کپوارہ جیسے ریاست جموں و کشمیر کے بھی اضلاع شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے 207 اضلاع کو ممکنہ 'ہاٹ اسپاٹ' کے زمرے میں رکھا گیا ہے، یعنی ان علاقوں میں بھی اس وبا کے تیزی سے پھیلنے کے امکانات ہیں۔
حکومت نے اقتصادی سرگرمیوں کے احیا کے لیے اکیس اپریل سے، خصوصی اقتصادی زون میں مینوفیکچرنگ، زراعت اور دیہی سیکٹر میں دوبارہ کام کاج شروع کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تاہم اس کے دوران سوشل ڈسٹینسنگ کی تمام شرائط پر عمل کرنا ضروری ہوگا۔
حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی نے لاک ڈاؤن کو غیر موثر قدم بتایا اور اسے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے لیے نئی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے میڈیا سے بریفنگ میں کہا، ''لاک ڈاؤن کورونا وائرس کو شکست نہیں دے پایا ہے، اسے روک دنیا چاہیے اور اس کے لیے جارحانہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔''
انہوں نے کہا کہ وائرس پر قابو پانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر اس کی جانچ شروع کی جائے، اس کا تعاقب کیا جائے اور جانچ میں اس سے بھی آگے نکلا جائے۔ ''حکومت کو میرا یہی مشورہ ہے کہ ٹیسٹ کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلائی جائے۔''
راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ مطلق لاک ڈاؤن سے معیشت تباہ ہو کر رہ گئی ہے اس لیے اسے جزوی طورپر ان علاقوں میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے جہاں خطرات زیادہ ہیں اور صنعتوں کو فوری طور کھولنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ غریبوں کے لیے غذائی اشیاء کی فراہمی کو یقین بنائے اور ایسے مجبور و بے سہارا غریبوں کے کھاتوں میں پیسہ پہنچائے جو اس لاک ڈاؤن سے بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں۔
اس دوران بھارت نژاد نوبیل انعام یافتہ ماہراقتصادیات امرتیہ سین اور ابھیجت بنرجی نے اپنے ایک مشترکہ مضمون میں لکھا ہے کہ اس طویل لاک ڈاؤن کے مستقل میں بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی اس وقت سب سے بڑی ذمہ داری ہے یہ کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ لوگ فاقہ کشی کا شکار نہ ہونے پائیں۔ اس کے لیے اسے غذائی اشیاء کی تقسیم کو مزید موثر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ فاقہ کشی کا خطرہ تو لاحق ہی ہے تاہم آمدن کے رکنے اور سیونگ کا خاتمہ پسماندہ طبقے کے لیے سنگین نتائج کا حامل ہوگا۔ ان کے مطابق اس سے کسان، مزدور، چھوٹے دکان دار سب سے زیادہ متاثر ہوں گے جو قرض لے کر کاروبار کرتے اور ان کے لیے اس کی واپسی بہت بڑا مسئلہ ہوگا۔
حکومت کے مطابق جمعرات پندرہ اپریل تک بھارت میں کووڈ انیس کے بارہ ہزار سے بھی زیادہ مصدقہ کیسز ہیں جبکہ چار سو سے زیادہ افراد اس بیماری سے اب تک ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ اب تک کورونا کے 12380 کیسز سامنے آئے جن میں سے 1488 افراد صحت یاب ہوئے ہیں جبکہ 414 کی موت ہوگئی۔ ریاست مہاراشٹر اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے جہاں تین ہزار سے بھی زیادہ کیسز ہیں اور تقریبا تین سو افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔
بھارت: کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن سے فاقہ کشی کا خطرہ
بھارت نے کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے حوالے سے علاقوں کی درجہ بندی میں چھ بڑے شہروں سمیت ملک کے 123 اضلاع کو سرخ زمرے میں رکھا ہے۔
بھارت میں کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر جاری لاک ڈاؤن میں اکیس اپریل سے جزوی نرمی کا فیصلہ کیا گيا ہے اور اسی لیے مختلف علاقوں کو تین زمروں میں تقسیم کیا گيا ہے۔ اس درجہ بندی کے تحت ممبئی، دہلی، کولکاتا، حیدرآباد، چینئی اور بنگلورو جیسے ملک کے چھ میٹروز اور دیگر بڑے شہروں سمیت تقریبا 170 اضلاع کو 'ہاٹ اسپاٹ' یعنی کورونا وائرس کی وبا کے لیے خطرناک مقامات قرار دیا گيا ہے۔
اس فہرست میں سری نگر، بانڈی پورہ، بارہ مولہ، جموں، ادھم پور اور کپوارہ جیسے ریاست جموں و کشمیر کے بھی اضلاع شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے 207 اضلاع کو ممکنہ 'ہاٹ اسپاٹ' کے زمرے میں رکھا گيا ہے، یعنی ان علاقوں میں بھی اس وبا کے تیزی سے پھیلنے کے امکانات ہیں۔
حکومت نے اقتصادی سرگرمیوں کے احیا کے لیے اکیس اپریل سے، خصوصی اقتصادی زون میں مینوفیکچرنگ، ذراعت اور دیہی سیکٹر میں دوبارہ کام کاج شروع کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تاہم اس کے دوران سوشل ڈسٹینسنگ کی تمام شرائط پر عمل کرنا ضروری ہوگا۔
اس دوران حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی نے لاک ڈاؤن کو غیر موثر قدم بتاتے ہوئے اسے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے لیے نئی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے میڈیا سے بریفنگ میں کہا، "لاک ڈاؤن کورونا وائرس کو شکست نہیں دے پایا ہے، اسے روک دنیا چاہیے اور اس کے لیے جارحانہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔"
انہوں نے کہا کہ وائرس پر قابو پانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر اس جانچ شروع کی جائے، اس کا تعاقب کیا جائے اور جانچ میں اس سے بھی آگے نکلا جائے۔ "حکومت کو میرا یہی مشورہ ہے کہ ٹیسٹ کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلائی جائے۔"
راہل گاندھی کا کہنا تھا کہ مطلق لاک ڈاؤن سے معیشت تباہ ہو کر رہ گئی ہے اس لیے اسے جزوی طر پر ان علاقوں میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے جہاں خطرات زیادہ ہیں اور صنعتوں کو فوری طور کھولنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ غریبوں کے لیے غذائی اشیاء کی فراہمی کو یقین بنائے اور ایسے مجبور و بے سہارا غریبوں کے کھاتوں میں پیسہ پہنچائے جو اس لاک ڈاؤن سے بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں۔
اس دوران بھارت نژاد نوبیل انعام یافتہ اقتصادی ماہرامرتیہ سین اور ابھیجت بنرجی نے اپنے ایک مشترکہ مضمون میں لکھا ہے کہ اس طویل لاک ڈاؤن کے مستقل میں بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی اس وقت سب سے بڑی ذمہ داری ہے یہ کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ لوگ فاقہ کشی کا شکار نہ ہونے پائیں۔ اس کے لیے اسے غذائی اشیاء کی تقسیم کو اور موثر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ فاقہ کشی کا خطرہ تو لاحق ہی ہے تاہم آمدن کے رکنے اور سیونگ کا خاتمہ پسماندہ طبقے کے لیے سنگین نتائج کا حامل ہوگا۔ ان کے مطابق اس سے کسان، مزدور، چھوٹے دکان دار سب سے زیادہ متاثر ہوں گے جو قرض لے کر کاروبار کرتے اور ان کے لیے اس کی واپسی بہت بڑا مسئلہ ہوگا۔
حکومت کے مطابق جمعرات پندرہ اپریل تک بھارت میں کووڈ انیس کے بارہ ہزار سے بھی زیادہ مصدقہ کیسز ہیں جبکہ چار سو سے زیادہ افراد اس بیماری سے اب تک ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ اب تک کورونا کے 12380 کیسز سامنے آئے جن میں سے 1488 افراد صحت یاب ہوئے ہیں جبکہ 414 کی موت ہوگئی۔ ریاست مہاراشٹر اس سے سب سے زیادہ متاّر ہوئی ہے جہاں تین ہزار سے بھی زیادہ کیسز ہیں اور تقریبا تین سو افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔