بھارت کی جوہری سرگرمیوں پر عالمی تشویش
29 مارچ 2016بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے بتایا کہ وزیر اعظم مودی واشنگٹن میں اکتیس مارچ سے شروع ہونے والی دو روزہ چوتھی نیوکلیئر سکیورٹی سمٹ (این ایس ایس) میں جوہری سلامتی کے حوالے سے بعض مخصوص اعلانات اور تجاویز پیش کریں گے۔ 2010ء میں امریکی صدر باراک اوباما کے ذریعے شروع کی گئی یہ چوٹی کانفرنس اس سلسلے کی آخری کانفرنس ہے، جس میں چار عالمی ادارے اور دنیا بھر کے ایسے 53 ممالک شرکت کر رہے ہیں، جن کے پاس اس کرۂ ارض پر موجود جوہری مادوں کا 98 فیصد ذخیر ہ موجود ہے۔
یوں تو بھارت کا دعویٰ ہے کہ اس کی جوہری تنصیبات ہر لحاظ سے محفوظ و مامون ہیں تاہم عالمی ادارے اور تھنک ٹینک بھارت میں جوہری سلامتی کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ امریکا کے مؤقر ادارے ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی اسکول کی طرف سے حال ہی میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی جوہری تنصیبات کوگوکہ پاکستان کی طرح دہشت گردوں سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے لیکن اسے ’’داخلی خطرہ‘‘ ضرور ہے۔ رپورٹ میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارت کو داخلی بدعنوانی کا سامنا ہے، گوکہ یہ پاکستان یا روس کے مقابلے میں کم ہے۔
جوہری سلامتی اورعوامی بیداری کے لیے سرگرم امریکی تنظیم این ٹی آئی یعنی نیوکلیئر تھریٹ انیشی ایٹیو نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت کے جوہری سلامتی کے اقدامات پاکستان کے سلامتی اقدامات کے مقابلے میں کمزور ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2008ء میں بھارت کے نیوکلیائی ادارے بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر کا دورہ کرنے والے امریکی ماہرین نے وہاں کے سکیورٹی انتظامات کو ’انتہائی نچلی سطح‘ کا قرار دیا تھا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت کو داخلی سطح پر خطرات کا سامنا تو ہے ہی، اسے پاکستان سے سرگرم انتہا پسند گروپوں کے حملوں کا بھی خطرہ ہے۔ اس ضمن میں پٹھان کوٹ ایئر بیس پر دو جنوری کو ہوئے دہشت گردانہ حملے کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
این ٹی آئی انڈکس کے مطابق جوہر ی سلامتی کے اقدامات کے حوالے سے بھارت 25 ملکوں کی فہرست میں 23 ویں مقام پر ہے۔ اس سے اس کی کمزور جوہری سلامتی اور تحفظ کا پتہ چلتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت اپنی موجودہ جوہری تنصیبات کی سلامتی اور تحفظ کے میکنزم کو بہتر بنانے کی بجائے اپنی نیوکلیائی تنصیبات کی توسیع میں مصروف ہے۔ بھارت چونکہ دنیا کا آبادی کے اعتبار سے دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کی بیشتر آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گذار رہی ہے، اس لیے ایسے حالات میں کوئی بھی جوہری تباہی یا حادثہ اس کے لیے بہت زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہو گا۔
دریں اثناء تفتیشی صحافی ایڈریان لیوی کے ان مضامین نے بھی بھارت کی پریشانیوں میں اضافہ کر دیا ہے، جن کے مطابق مشرقی صوبے جھاڑ کھنڈ میں جوہری مادوں کی کانوں میں کام کرنے والے، گاؤں کے رہائشی اور کانوں اور فیکٹریو ں کے نزدیک رہنے والے بچے جوہری تابکاری کے سبب کئی طرح کے امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔ بھارتی حکام بہر حال اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔
بھارت نیوکلیئر ڈپلومیٹک ایجنڈے پر کافی شدت سے سرگرم ہے، جس کا مقصد دنیا کے سامنے خود کو جوہری ہتھیاروں سے لیس ایک ذمہ دار ملک کے طور پر پیش کرنا اور سویلین بین الاقوامی جوہری تجارت میں اپنی شرکت کو یقینی بنانا ہے۔ این ایس ایس میں بھارت کی دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ درون ملک اور اپنے پڑوسی ملکوں میں جوہری مادوں اور سہولیات کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہتا ہے تاکہ یہ دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ سکیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی واشنگٹن کی این ایس ایس کانفرنس میں جوہری سلامتی کے حوالے سے عالمی تشویش کو کس طرح دُور کرتے ہیں۔
اسٹریٹیجک امور کی ماہر ادیتی ملہوترا کا کہنا ہے کہ اگر بھارت اپنی جوہری سرگرمیوں اور تنصیبات کے تحفظ اور سلامتی کے حوالے سے اقدامات کے متعلق کھل کر بتاتا ہے تو یہ نہ صرف اس کے اپنے عوام کے لیے بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی کافی سود مند ثابت ہو گا۔