1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کی جوہری سرگرمیوں پر عالمی تشویش

جاوید اختر، نئی دہلی29 مارچ 2016

بھارت میں نیوکلیائی تنصیبات کے تحفظ اورجوہری مادوں کی تابکاری کے منفی اثرات پر عالمی تشویش کے پس منظر میں وزیر اعظم نریندر مودی نیوکلیئر سکیورٹی سمٹ (این ایس ایس) میں بھارت کی جوہری سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کریں گے۔

https://p.dw.com/p/1ILJm
Kudankulam Atomkraftwerk Indien
بھارت کا کڈنکولم ایٹمی بجلی گھر روس کی مدد سے چنئی سے 700 کلومیٹر جنوب کی جانب سمندر کے کنارے بنایا گیا ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/Arun Sankar K.

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے بتایا کہ وزیر اعظم مودی واشنگٹن میں اکتیس مارچ سے شروع ہونے والی دو روزہ چوتھی نیوکلیئر سکیورٹی سمٹ (این ایس ایس) میں جوہری سلامتی کے حوالے سے بعض مخصوص اعلانات اور تجاویز پیش کریں گے۔ 2010ء میں امریکی صدر باراک اوباما کے ذریعے شروع کی گئی یہ چوٹی کانفرنس اس سلسلے کی آخری کانفرنس ہے، جس میں چار عالمی ادارے اور دنیا بھر کے ایسے 53 ممالک شرکت کر رہے ہیں، جن کے پاس اس کرۂ ارض پر موجود جوہری مادوں کا 98 فیصد ذخیر ہ موجود ہے۔

یوں تو بھارت کا دعویٰ ہے کہ اس کی جوہری تنصیبات ہر لحاظ سے محفوظ و مامون ہیں تاہم عالمی ادارے اور تھنک ٹینک بھارت میں جوہری سلامتی کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ امریکا کے مؤقر ادارے ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی اسکول کی طرف سے حال ہی میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی جوہری تنصیبات کوگوکہ پاکستان کی طرح دہشت گردوں سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے لیکن اسے ’’داخلی خطرہ‘‘ ضرور ہے۔ رپورٹ میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارت کو داخلی بدعنوانی کا سامنا ہے، گوکہ یہ پاکستان یا روس کے مقابلے میں کم ہے۔

Indien Ministerpräsident Narendra Modi
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودیتصویر: UNI

جوہری سلامتی اورعوامی بیداری کے لیے سرگرم امریکی تنظیم این ٹی آئی یعنی نیوکلیئر تھریٹ انیشی ایٹیو نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت کے جوہری سلامتی کے اقدامات پاکستان کے سلامتی اقدامات کے مقابلے میں کمزور ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2008ء میں بھارت کے نیوکلیائی ادارے بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر کا دورہ کرنے والے امریکی ماہرین نے وہاں کے سکیورٹی انتظامات کو ’انتہائی نچلی سطح‘ کا قرار دیا تھا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت کو داخلی سطح پر خطرات کا سامنا تو ہے ہی، اسے پاکستان سے سرگرم انتہا پسند گروپوں کے حملوں کا بھی خطرہ ہے۔ اس ضمن میں پٹھان کوٹ ایئر بیس پر دو جنوری کو ہوئے دہشت گردانہ حملے کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔

این ٹی آئی انڈکس کے مطابق جوہر ی سلامتی کے اقدامات کے حوالے سے بھارت 25 ملکوں کی فہرست میں 23 ویں مقام پر ہے۔ اس سے اس کی کمزور جوہری سلامتی اور تحفظ کا پتہ چلتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت اپنی موجودہ جوہری تنصیبات کی سلامتی اور تحفظ کے میکنزم کو بہتر بنانے کی بجائے اپنی نیوکلیائی تنصیبات کی توسیع میں مصروف ہے۔ بھارت چونکہ دنیا کا آبادی کے اعتبار سے دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کی بیشتر آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گذار رہی ہے، اس لیے ایسے حالات میں کوئی بھی جوہری تباہی یا حادثہ اس کے لیے بہت زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہو گا۔

دریں اثناء تفتیشی صحافی ایڈریان لیوی کے ان مضامین نے بھی بھارت کی پریشانیوں میں اضافہ کر دیا ہے، جن کے مطابق مشرقی صوبے جھاڑ کھنڈ میں جوہری مادوں کی کانوں میں کام کرنے والے، گاؤں کے رہائشی اور کانوں اور فیکٹریو ں کے نزدیک رہنے والے بچے جوہری تابکاری کے سبب کئی طرح کے امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔ بھارتی حکام بہر حال اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔

Symbolbild Radioaktivität Atomkraft Risiken
ماہرین کے مطابق بھارت جیسے آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک میں کوئی بھی جوہری تباہی یا حادثہ بہت زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہو گاتصویر: Thomas Bethge/Fotolia.com

بھارت نیوکلیئر ڈپلومیٹک ایجنڈے پر کافی شدت سے سرگرم ہے، جس کا مقصد دنیا کے سامنے خود کو جوہری ہتھیاروں سے لیس ایک ذمہ دار ملک کے طور پر پیش کرنا اور سویلین بین الاقوامی جوہری تجارت میں اپنی شرکت کو یقینی بنانا ہے۔ این ایس ایس میں بھارت کی دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ درون ملک اور اپنے پڑوسی ملکوں میں جوہری مادوں اور سہولیات کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہتا ہے تاکہ یہ دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ سکیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی واشنگٹن کی این ایس ایس کانفرنس میں جوہری سلامتی کے حوالے سے عالمی تشویش کو کس طرح دُور کرتے ہیں۔

اسٹریٹیجک امور کی ماہر ادیتی ملہوترا کا کہنا ہے کہ اگر بھارت اپنی جوہری سرگرمیوں اور تنصیبات کے تحفظ اور سلامتی کے حوالے سے اقدامات کے متعلق کھل کر بتاتا ہے تو یہ نہ صرف اس کے اپنے عوام کے لیے بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی کافی سود مند ثابت ہو گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید