کیا مسلم مخالف حملے معمول بنتے جا رہے ہیں؟
9 دسمبر 2021بھارتی مسلم کامیڈین منور فاروقی نے گزشتہ ہفتے کامیڈی کے منظر نامے سے ہٹ جانے کا عندیہ دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے متعدد شوز کو سخت گیر موقف رکھنے والے یا انتہا پسند ہندوؤں کے گروپوں کی طرف سے توڑ پھوڑ یا تخریب کاری کی دھمکی کے سبب منسوخ کر دیا گیا تھا۔
فاروقی نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں تحریر کیا، ''نفرت جیت گئی، فنکار ہار گیا۔‘‘ فاروقی کو رواں برس یکم جنوری کو ان کے ایک شو کے ختم ہوتے ہی اس الزام میں گرفتار کر لیا گیا کہ ان کے شو کے لیے چند ایسے لطیفے تیار کیے گئے تھے جن میں ہندوؤں کے مذہبی جذبات کی توہین کی گئی تھی۔ حالانکہ اس شو میں ایسا کوئی مواد شامل نہیں تھا۔ اس کے بعد فاروقی نے ایک ماہ جیل میں گزارا تھا۔ فارقی بھارت کے ایک ''اسٹینڈ۔اپ‘‘ کامیڈین ہیں جو اس واقعے کے بعد سے مسلسل ہندوؤں کے ایک چوکنا گروپ کے حملوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
بھارت: مذہبی تحفظ کا مطالبہ کرنے والے سینکڑوں مسیحی گرفتار
مذہبی منافرت کے چند دیگر واقعات
دائیں بازو کے بجرنگ دل گروپ نے اکتوبر میں ریاست بھوپال میں ویب سیریز ''آشرم‘‘ کے سیٹ پر حملہ کیا۔ اس گروپ کا دعویٰ یہ تھا کہ اس سیریز کا عنوان دراصل ہندو ازم پر حملہ ہے۔ مبینہ انتہا پسند ہندو حملہ آوروں نے فلمساز پرکاش جھا کو سیاہی سے کالا کر دیا تھا اور ان کے عملے کے ایک اور رکن پر بھی حملہ کیا تھا۔
اگست میں ایک 45 سالہ مسلمان رکشہ ڈرائیور کو شمالی ریاست اتر پردیش میں سخت گیر یا انتہا پسند ہندوؤں کے ایک گروپ نے زدو کوب کیا تھا۔ اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں انتہائی ظالمانہ مناظر دیکھنے میں آئے۔ ان انتہا پسندوں نے جے شری رام کا نعرہ لگتے ہوئے جس وقت رکشہ ڈرائیور کو تشدد کا نشانہ بنایا، اُس وقت اُس کی جوان بیٹی اپنے باپ کو بچانے کے لیے اُس سے لپٹی ہوئی تھی اور حملہ آوروں سے التجا کر رہی تھی کہ اُس کے باپ پر ظلم نہ کریں۔
بھارتی انتخابات: مسیحیوں اور مسلمانوں کو مذہبی تشدد کا خوف
غزالہ وہاب کتاب Born A Muslim: Some Truths About Islam in India کی مصنفہ ہیں۔ انہوں نے بھارت میں مذہبی منافرت پر مبنی جرائم سے جُڑے تشدد میں غیر معمولی اضافے سے خبردار کیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''یہ ایک مقامی یا علاقائی مسئلہ بن گیا ہے۔ ہر شہری کی عام زندگی پر اثر انداز ہو رہا ہے لیکن اس کا سب سے زیادہ خمیازہ بھارت کے مسلمانوں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘
غزالہ وہاب نے تاہم یہ بھی کہا کہ وہ ایسے لوگوں کو بھی جانتی ہیں جو مسلمان نہیں ہیں لیکن اس رویے سے پریشان ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''یہ خوف معاشرے میں اس طرح سرایت کر چُکا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔‘‘
حکمران پارٹی اور مذہبی امتیاز
نئی دہلی یونیورسٹی میں سیاسیات کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر تنویر اعجاز کا کہنا ہے کہ بھارت میں فرقہ وارانہ تشدد کی جڑیں 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم تک جاتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہندوستانی مسلمان تقسیم کے احساس جرم میں زندگی گزار رہے ہیں حالانکہ ان کے اندر یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بھارت میں جو مسمان رہ رہے ہیں انہوں نے کبھی بھی ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ نہیں کیا۔ یہ صرف سیاستدان ہیں جو اس احساس کو اجاگر کرنے، اسے اُچھالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔‘‘ تنویر اعجاز کے بقول بھارت میں مذہبیت کا ایک مطلب دیگر مذہبی برادریوں کو غیر اور بیگانہ سمجھنا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''یہ احساس اور اس سے جُڑی سوچ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بہت بڑھی ہے۔‘‘
بھارت میں کلیساؤں پر حملے: مودی کا کریک ڈاؤن کا وعدہ
ماہر سیاسیات تنویر اعجاز کا مزید کہنا تھا، ''بھارتی پریس نے ملک کے دیرینہ کم شدت کے تنازعات، کو بے نقاب کیا ہے جس کے اثرات سول سوسائٹی پر نظر آتے ہیں۔ بھارت میں نسلی اور مذہبی خطوط پر 'ہم بمقابلہ وہ‘ کی سوچ بہت نمایاں ہے۔ یہاں ثقافتی اور مذہبی تصادم عروج پر ہے۔ جسے مذہبی جارحیت کہا جا سکتا ہے۔‘‘
مذہب برائے استثنیٰ
حالیہ برسوں میں بھارت میں سب سے زیادہ فرقہ وارانہ فسادات بجرنگ دل جیسی ہندو انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے ہوئے۔ غزالہ وہاب کہتی ہیں، ''ایسی چھوٹی آرگنائزیشنز بھی ہیں جنہیں پولیس ہاتھ بھی نہیں لگانا چاہتی۔ کیونکہ یہ مذہب کی آڑ میں سب کچھ کر رہے ہیں اور ان کے لیے ایک طرح سے استثنیٰ ہے، جو ان گروپوں کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔‘‘ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اعجاز نے بھارت کے اداروں کے اندر مضبوط احتساب کا مطالبہ کیا ہے۔
بھارتی ’ریپ گرو‘ کو دس برس قید کی سزا، سکیورٹی انتہائی سخت
وہ کہتے ہیں، ''میں دیکھ رہا ہوں کہ ادارے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ خاص طور سے پولیس اور لاء اینڈ آرڈر کے نگران ادارے ۔ انہیں اپنا کام مستعدی سے انجام دینا چاہیے۔‘‘ غزالہ وہاب نے بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت سے خبر دار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اس خطرناک صورتحال پر توجہ مرکوز نہ کی گئی تو بھارتی معاشرے میں دراڑیں مزید گہری ہوتی چلی جائیں گی۔ ‘‘
وید دھروی (ک م/ا ب ا)