بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مزید دو ہلاک
3 اگست 2010منگل کو بھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہزاروں مظاہرین نے کرفیو کی پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مختلف ریلیوں میں شرکت کی اور بھارت مخالف نعرے بازی کے ساتھ ساتھ پولیس پر پتھراؤ بھی کیا۔ پولیس کے مطابق تازہ ترین ہلاک ہونے والوں میں ایک سری نگر کے علاقے قمرواری کا معراج دین لون اور دوسرا عیدگاہ کا انیس خورشید ہے۔ معراج دین کی موت کے بعد مظاہرین نے اس کی میت کو ایک سٹریچر پر ڈال کر ایک احتجاجی ریلی نکالی اور بھارت کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں نے گولی اس وقت چلائی جب ان پر مظاہرین کے ہلے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ سری نگر اور بڈگام میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے ہوائی اور براہ راست فائرنگ کا استعمال بھی کیا۔ بڈگام میں بھی دو افراد کے شدید زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے اراکین کو کرفیو پاس کے باوجود منگل کے مظاہروں کی کوریج سے بھی روک دیا گیا۔ وادیء کشمیر میں گیارہ جون کو شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد اب 41 ہو گئی ہے۔ مرنے والوں میں سے بیشتر پولیس کی فائرنگ سے زخمی ہوئے تھے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ دو برسوں میں ہونے والے یہ انتہائی خونی احتجاجات قرار دئے گئے ہیں۔ سری نگر کے گرد و نواح میں ہونے والے ان مظاہروں کی حمایت میں جموں خطے کے شہروں کشتواڑ اور ڈوڈا میں بھی مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کے لئے جلوس نکالے گئے اور ہڑتال کی گئی۔
ریاستی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بحرانی صورت حال پر مشورت کے لئے گزشتہ روز دہلی گئے ہوئے تھے اور اس مناسبت سے انہوں نے وزیر اعظم من موہن سنگھ سے بات چیت بھی کی تھی۔ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ سردست ان کی ریاست اور حکومت پرتشدد مظاہروں کی گرفت میں ہے اور مظاہروں میں ہلاکتوں کی وجہ سے مزید مظاہرے کئے جا رہے ہیں، جن میں مزید افراد جاں بحق ہو رہے ہیں۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ اس خونریز سلسلے کو روکنا انتہائی ضروری ہو گیا ہے۔ مرکزی حکومت سے مشاورت کے دوران عمر عبداللہ نے مزید نیم فوجی دستوں کی مانگ بھی کی تا کہ کرفیو کے نفاذ کا مکمل احترام کرایا جا سکے۔ مرکز کی جانب سے اگلے دو دنوں میں مزید 1900 نیم فوجی دستے وادی میں پہنچا دئے جائیں گے۔
دوسری جانب ریاست جموں کشمیر میں بھارت نواز حلقے سکیورٹی کے مزید سخت انتظامات کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں اس سے مقامی آبادی کو ہراساں کرنے کے کوشش میں ناکامی کے بعد منفی اثرات مرتب ہوں گے اور مجموعی صورت حال خراب تر ہونے کے ساتھ عوامی غیض وغضب میں زیادہ ہو جائے گا۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: مقبول ملک