بھارت کے لیے روسی تیل، باہمی فائدے کی شراکت داری
3 مارچ 2023بھارت اور روس کی دوستی اور اقتصادی شراکت داری کی تاریخ پرانی ہے۔ روس کو بھارت میں ایک روایتی سیاسی اور اقتصادی شراکت دار کی وجہ سے بڑی قدر و قیمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ گزشتہ برس یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے ان دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید تیزی پیدا ہوئی ہے۔
بھارت اب روس سے ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ مقدار میں خام تیل درآمد کر رہا ہے۔ یہی وہ عوامل تھے، جن کی وجہ سے جرمن چانسلر اولاف شولس نے حال ہی میں بھارتکا دورہ کیا کیونکہ جرمنی اب بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید وسعت دینے کی سعی کر رہا ہے۔
بھارت کی وزارت تجارت و صنعت کے مطابق روس گزشتہ ایک سال میں بھارت کی درآمدات کا چوتھا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ برس یعنی 2022 ء اپریل تا دسمبر ان درآمدات میں 30.08 بلین یورو کا اضافہ ہوا جبکہ اس سے ایک سال قبل یعنی 2021 ء انہی مہینوں کے دوران یہ درآمدات 6.58 بلین یورو تھیں۔
بھارتی کے کامرس سکریٹری سنیل برتھوال نے نیوز آؤٹ لیٹ نکی ایشیا کو اس بارے میں ایک بیان دیتے ہوئے بتایا،''بھارت نے روس سے بہت سا خام تیل خریدا، اسے ریفائینڈ پٹرولیم مصنوعات میں تبدیل کیا اور پھر اسے فروخت کیا۔‘‘
سرد جنگ کے دوران ہتھیاروں کے معاہدے
روس اور بھارت، دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان اقتصادی اور سیاسی تعلقات نہ صرف تیل کے حوالے سے ان کے باہمی مفاد پر مبنی ہیں بلکہ ان کی تاریخ کے تانے بانے سرد جنگ کے دوران دونوں کے دیرینہ تعاون سے ملتے ہیں۔
سابق سوویت یونین نے کئی دہائیوں تک بھارت کو ہتھیار فراہم کیے اور بھارتی فوجیوں کو مطلوبہ تربیت فراہم کی۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) کے مطابق بھارت نے 1955ء اور 1991ء کے درمیان اپنے 60 فیصد ہتھیار سوویت یونین سے حاصل کیے تھے۔
امریکی ریاست الاباما میں قائم ایئر یونیورسٹی، جو امریکی فضائیہ کو فوجی تعلیم فراہم کرتی ہے، کے مطابق بھارت اور روس کے درمیان فوجی تعاون ہمیشہ سے نمایاں رہا ہے۔
دوسری جانب بھارت کے روایتی حریف ملک پاکستان کو امریکہ اسلحہ جات فراہم کرتا رہا، جس کے سبب نئی دہلی اور واشنگٹن کے مابین تعلقات ہمیشہ سے سرد مہری کا شکار رہے۔ مزید برآں ایک طویل عرصے تک سوویت طرز کی اقتصادی منصوبہ بندی بھارتی معیشت کے لیے ایک ماڈل کے طور پر غیر معمولی اہمیت کی حامل رہی ہے، خاص طور سے نوآبادیاتی نظام سے باہر نکلنے اور غربت سے لڑنے کی کوششوں کے دوران۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد بھارت نے اصلاحات متعارف کرائیں اور اپنی معیشت کو دنیا کے لیے کھول دیا۔
روس برکس ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات مزید گہرے کرنا چاہتا ہے
اس سے بھارتی حکومت کو متعدد فوائد پہنچے۔ یہ توانائی کی قیمت کو کم کر سکتی ہے کیونکہ یہ توانائی کی ضروریات کا 80 فیصد سے زیادہ درآمدات سے پورا کرنے کے قابل ہے۔ مزید برآں نئی دہلی مشرقِ وسطیٰ پر اپنا انحصار کم کر سکتی ہے، جو کبھی اس جنوبی ایشیائی ملک کی تیل کی درآمدات کا تقریباً 60 فیصد کا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔
امریکہ سے مفاہمت
2005 ء میں جارج ڈبلیو بش کے صدارتی دور میں امریکی نمائندوں نے بھارت کے بارے میں بیان دیتے ہوئے ''مشترکہ اقدار‘‘ کے ساتھ ''فطری اتحادی‘‘ جیسی اصلاحات کا استعمال کیا اور کہا کہ بھارت امریکی تعاون سے''اکیسویں صدی میں ایک بڑی عالمی طاقت‘‘ بن جائے گا۔
دنیا حریف دھڑوں میں تقسیم ہے، لیکن بھارت مضبوط کھڑا ہے، مودی
اس سے یہ تو ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت امریکہ کے ساتھ اپنی نئی شراکت داری کی اہمیت کو بخوبی سمجھتا اور اس کی قدر کرتا ہے تاہم ایک سرکردہ عالمی سیاسی کھلاڑی کا کردار ادا کرنے کے لیے بھارت اپنے دیرینہ دوست روس کے ساتھ مختلف اداروں، جیسے کہ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (SCO)، برکس بلاک، جس میں (برازیل، روس، بھارت، چین، جنوبی افریقہ شامل ہیں) کے رُکن کے طور پر بھی تعاون جاری رکھے ہوئے ہے اور روس، بھارت اور چین (RIC) گروپنگ کا بھی سرکردہ ممبر ہے۔
ایک معروف امریکی تھنک ٹینک کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے راجن مینن اور اوئیگین رومر نے گزشتہ سال ستمبر میں لکھا تھا، ''روس بھارت شراکت داری جاری رہے گی۔ بھارت کے لیے روس ہتھیاروں کا ایک اہم سپلائر بنا ہوا ہے۔ نئی دہلی روس پر مغرب کی پابندیوں میں شامل نہیں ہوا ہے۔ ایسا کر کے، اس نے اپنی آزاد خارجہ پالیسی کا مظاہرہ کیا ہے۔‘‘
ک م/ ا ا( پرانج دے اولیویرا، آسٹرڈ)