بھارت ہزاروں مزدوروں کو اسرائیل کیوں بھیج رہا ہے؟
5 فروری 2024گزشتہ ماہ اترپردیش اور ہریانہ کے مختلف شہروں میں قائم کیے گئے تقرری کیمپوں میں کامیاب قرار دیے جانے والے مزدوروں کو اگلے ہفتے سے اسرائیل جانے کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ فی الحال ہر ہفتے سات سو سے ایک ہزار کے درمیان مزدور اسرائیل بھیجے جائیں گے۔
اسرائیل اور حماس کی جنگ کے بعد سے اسرائیل میں تعمیراتی مزدوروں کی سخت قلت ہوگئی ہے کیونکہ اسرائیل نے فلسطینی مزدوروں کو کام دینا بند کر دیا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظراسرائیل نے بھارت سے بھی مزدوروں کو درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ یوں بھی گزشتہ سال ہی بھارت نے 42000 تعمیراتی اور نرسنگ اسٹاف بھیجنے کے لیے اسرائیل سے ایک معاہدہ کیا تھا۔
اسرائیل ایک لاکھ بھارتی ورکرز کی خدمات کے حصول کا خواہاں
گزشتہ ماہ کے اوائل میں اسرائیل سے ایک پندرہ رکنی ٹیم بھارت آئی تاکہ ملک کے مختلف حصوں سے مزدوروں کی تقرری کرسکے۔ اس کے تحت پہلے ہریانہ اور پھر اترپردیش میں بالترتیب 530 اور 5087 تعمیراتی مزدوروں کی تقرری کو حتمی شکل دی گئی۔
پانچ مزید ریاستوں بہار، ہماچل پردیش، تلنگانہ، راجستھان اور میزورم کی حکومتوں نے بھی اپنے یہاں اسی طرح کے تقرری کیمپ منعقد کرنے کے لیے مرکزی حکومت سے باضابطہ اپیل کی ہے۔ ذرائع کے مطابق ان ریاستوں میں بھی جلد ہی یہ مہم شروع کی جائے گی۔
یہ تقرری کیسے کی جارہی ہے؟
اسرائیلی حکام تقرری اور اس کی تفصیلات کے بارے میں بتانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔اسرائیلی حکومت کی ایک ایجنسی پاپولیشن، امیگریشن اینڈ بارڈر اتھارٹی نے صرف اتنا بتایا ہے کہ ان مزدوروں کو ماہانہ 137000بھارتی روپے (1650ڈالر) دیے جائیں گے۔
یہ تقرریاں بھارت کی سرکاری ایجنسی نیشنل اسکل ڈیولپمنٹ کارپوریشن (این ایس ڈی سی) کے توسط ہو رہی ہیں۔
این ایس ڈی سی کے چیف آپریٹنگ افسر اجے کمار رائنا نے بتایا کہ "بھارت اور اسرائیل کے مابین حکومتی سطح پر بھارت سے دس ہزار تعمیراتی مزدور بھیجنے کا ایک معاہدہ موجود ہے۔ ہم نے تمام ریاستوں سے اس میں مدد کرنے کی اپیل کی جس پر ہریانہ اور اترپردیش نے آگے بڑھ کر عمل کیا۔"
بھارت اور اسرائیل کے تعلقات نئی بلندیوں کی جانب
ان مزدوروں کو تعمیرات کے شعبے میں سریوں کو موڑنے، راج مستری، ٹائل لگانے، چھت ڈھالنے کے لیے شٹر لگانے جیسے کام دیے جائیں گے۔
ٹریڈ یونینوں کو اعتراض کیوں ہے؟
بھارت کی متعدد ٹریڈ یونینوں نے مزدوروں کو اسرائیل بھیجنے پر سخت اعتراض کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی کی حکومت سے اپیل کی کہ وہ اسرائیل کے ساتھ یہ معاہدہ ختم کردے۔
کیا مودی حکومت نے بھارت کی دیرینہ فلسطین پالیسی ترک کر دی؟
بھارت کی اہم ٹریڈ یونین سیٹو(CITU) کے جنرل سکریٹری تپن سین نے ایک بیان میں کہا،" سیٹو تمام بھارتی مزدوروں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ بی جے پی کی قیادت والی حکومت کے جال میں نہ پھنسیں...کیونکہ انہیں ایک ایسے علاقے میں بھیجا جارہا ہے جو شورش زدہ ہے۔"
مزدور تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایک تصادم زدہ علاقے میں مزدوروں کو بھیجنا ان کی زندگی کو جان بوجھ کر خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
مودی حکومت نے تاہم اس اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل او ای سی ڈی کا رکن ملک ہے جو "مزدوروں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔"
’’اسرائیل اور بھارت کی آسمانوں پر شادی‘‘
حکومت کا کہنا ہے کہ "دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے کے تحت بھارت سے جانے والے مزدوروں کے ساتھ بہتر سلوک کیا جائے گا، ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اور ان کے ساتھ کسی طرح کی تفریق نہیں کی جائے گی۔"
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال کا کہنا تھا،" میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اسرائیل میں لیبر قوانین بہت بہتر اور سخت ہیں اور مزدوروں کے حقوق اور تارکین وطن کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔"
ٹریڈ یونینوں کی تشویش کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان مزدوروں کی تقرری 'ای مائیگریٹ' سسٹم کے ذریعے نہیں بلکہ این ایس ڈی سی کے ذریعے ہورہی ہے۔
ای مائیگریٹ سسٹم کے ذریعہ بھارت سے بیرون ملک ملازمت کے لیے جانے والوں کو لائف انشورنس اور دیگر تحفظات حاصل ہوتی ہیں۔ اور این ایس ڈی سی کے توسط سے تقرری کی وجہ سے وہ ان مراعات سے محرو م رہ جائیں گے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی مزدور اسرائیل بھیجنے کے بھارت کی خارجہ پالیسی پر بھی سنگین مضمرات ہوسکتے ہیں۔
بھارتی اسرائیل جانے کے لیے اتنے بیتاب کیوں ہیں؟
ہریانہ کے ایک تقرری مرکز کے ذریعہ اسرائیل جانے کے لیے منتخب ہوجانے والے ایک 26سالہ نوجوان نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، " اسرائیل میں ہمیں جو ملازمت مل رہی ہے اس میں تنخواہ بھارت سے پانچ گنا زیادہ ہے۔مجھے معلوم ہے کہ وہاں بہت خطرات ہیں، لیکن میرے پا س کوئی متبادل بھی تو نہیں ہے۔ مجھے اپنی بیوی بچوں اور والدین کا بھی تو خیال رکھنا ہے۔"
مودی حکومت نے ایک ہفتہ قبل ہی دعوی کیاہے کہ بھارت کی جی ڈی پی اگلے تین سال میں پانچ ٹریلین ڈالر اور سن 2030تک سات ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔تاہم بیشتر بھارتیوں کے لیے زندگی بہت دشوار ہے۔
سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی نے دسمبر 2023میں اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارت میں بے روزگاری کی شرح 8.3 فیصد ہے۔ بیس سے چوبیس برس عمر کے گروپ میں بے روزگاری کی شرح 44فیصد ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
بے روزگاری، مہنگائی اور کم اجرت جیسے عوامل نوجوان بھارتیوں کو اپنی زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے سنگین خطرات مول لینے سے بھی باز نہیں رکھ پارہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے لیے تقرری کے مراکز پر ہزاروں نوجوان اپنے اپنے اسناد اور دستاویزات لے کر قسمت آزمانے کے لیے پہنچ رہے ہیں۔