بھارت:40 فیصد خواتین 19 برس سے کم عمر میں تشدد کا شکار
25 نومبر 2016پچیس نومبر کو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر غیر سرکاری تنظیم ایکشن ایڈ کی طرف سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں دس برس سے کم عمر میں ہی چھ فیصد بچیوں کو کسی نہ کسی طرح کے تشدد یا استحصال کا سامنا رہتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ یعنی اکتوبر میں بھارت میں تقریباً تہتر فیصد خواتین کو کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا سامنا رہا۔ سروے میں شامل ہر چار خواتین میں سے ایک یا تقریباً چھبیس فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ ان کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سروے میں اٹھارہ اور اس سے زیادہ عمر کی پچیس سو سے زائد خواتین نے حصہ لیا۔
اس دوران بھارت کے سرکاری ادارہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی طرف سے حال ہی میں جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق ملک میں خواتین کے ساتھ چھیڑ خانی کے واقعات میں تینتیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس جرم میں ملوث ملزمان میں سے ساٹھ فیصد کی عمر اٹھارہ سے تیس سال کے درمیان تھی۔ سن 2015 میں عدالتوں میں چھیڑ خانی کے چوراسی فیصد واقعات زیر التوا تھے جبکہ سن 2014 میں یہ تعداد اکانوے فیصد تھی۔
سروے کے مطابق دس میں سے آٹھ یا تقریباً بیاسی فیصد خواتین اپنے تحفظ کے لئے کئی طرح کے طریقے استعمال کرتی ہیں۔ وہ جن طریقوں کا استعمال کرتی ہیں ان میں پارک یا ہلکی روشنی والے علاقوں میں جانے سے گریز، راستہ تبدیل کر کے گھر یا دفتر جانا، سیلف ڈیفنس، ریپ الارم اور مرچ اسپر ے کا استعمال شامل ہیں۔ تئیس فیصد خواتین چابی کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
ایکشن ایڈ انڈیا کے ایگزیکیوٹیو ڈائریکٹر سندیپ چھاچھرا کا اس رپورٹ کے حوالے سے کہنا ہے کہ بھارت میں خواتین پر ہونے والے تشدد اور ان کے استحصال کو روکنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں خواتین کے حقوق، ان کی صلاحیتوں اور ان کی اہلیت کے سلسلے میں کافی بیداری آئی ہے لیکن اب بھی خواتین کی سلامتی کے لئے زیادہ قدم اٹھانے اور خواتین کے حوالے سے لوگوں کی ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
دریں اثناء بھارت میں ایک ہزار اور پانچ سو روپے کے کرنسی نوٹوں پر پابندی عائد کرنے کا ایک اثر خواتین پر تشدد کی صورت میں بھی سامنے آیاہے۔ خبروں کے مطابق جن بیویوں نے اپنے شوہروں سے چھپا کر کچھ پیسے رکھے تھے اب ان میں سے بعض کو شوہروں کے عتاب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بعض کیسز میں خواتین کو تھانے میں شکایات درج کرانی پڑی ہیں۔