بھارت:کشمیر میں صحافت کا گلا گھونٹنے کی کوشش
21 اپریل 2020بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی نوجوان فوٹو جرنلسٹ مسّرت زہرانے اپنے خلاف پولیس کی کارروائی کو انتظامیہ کی جانب سے کشمیر میں صحافت کا گلا گھونٹنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ کشمیر پریس کلب نے بھی مسرت زہراکے خلاف مقدمے کی مذمت کرتے ہوئے اسے فوراً واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
مسرت زہرا کا تعلق کشمیر کے سرینگر سے ہے۔وہ گزشتہ کئی برسوں سے بھارت سمیت کئی بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے کام کررہی ہیں۔ ان کی کئی رپورٹیں 'واشنگٹن پوسٹ' اور الجزیرہ میں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ کشمیر سینٹرل یونیورسٹی سے انہوں نے صحافت میں ایم اے کیا ہے اور وادی جیسے سورش زدہ علاقے میں ان کا بیشتر کام ان پریشان حال خواتین کے تعلق سے ہے، جن کی زندگیاں پرتشدد حالات کے سبب اجڑ چکی ہیں۔
کشمیر کی پولیس نے تاہم ان کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے صحافی کے بجائے محض سوشل میڈیا کے ایک صارف کے طور پر ان کاذکر کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کی پوسٹ بھارت مخالف ہیں اور ان کے اشتعال انگیز پیغامات نوجوانوں کو بھارت کے خلاف مسلح بغاوت کے لیے اکسا سکتے ہیں۔ اسی لیے انتظامیہ نے غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد قانون (یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ عام طور پر اس قانون کا استعمال ملک کی سالمیت یا خود مختاری کے خلاف کام کرنے والوں کے خلاف کیا جاتا ہے۔
مسرت زہرانے ان تمام الزامات کو بے بنیاد بتاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پولیس کی جانب سے کشمیرمیں آزاد صحافت اور حقائق پر مبنی رپورٹنگ کو دبانے کی کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''میں نہ تو کوئی کارکن ہوں، کسی تنظیم سے نہ تو میرا کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی سیاست سے میرا کچھ لینا دینا ہے۔ میں پیشے سے ایک صحافی ہوں اور پیشے کے تمام اصول و ضوابط کے مطابق حقائق پیش کرتی ہوں اور وہی سوشل میڈیا پر بھی شیئر کرتی ہوں۔انتظامیہ کو اسی سے پریشانی ہے۔ یہ حقیقت پر مبنی صحافت کو کچلنے کی کوشش نہیں تو اور کیا ہے؟انہیں اسی سے تو پریشانی ہے۔''
مسرت کا کہنا تھا کہ وہ خواتین کے مسائل کو اجاگر کرتی اور ایک لڑکی ہونے کے ناطے خواتین ان کے ساتھ کھل کر بات کر پاتی ہیں اور اپنی پریشانیاں شیئر کرتی ہے۔ ''چونکہ خواتین تک میری رسائی آسان ہے، وہ مجھے اپنی آپ بیتی بلاجھجھک سناتی ہیں اور میں ان کی آواز اٹھاتی ہوں۔''
مسرت نے حال ہی میں تشدد زدہ کشمیر میں ذہنی تناؤ میں مبتلا ایک خاتون پر اسٹوری کی تھی۔جن کے بقول ان کے شوہر کو بیس برس قبل، ایک ''فرضی تصادم'' میں ہلاک کردیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے کچھ تصویریں بھی لی تھیں اور اسٹوری کو ٹویٹر پر ''کشمیر بلیڈز'' کے نام سے شیئر کیا۔ انہوں نے کہانی کا ایک اقتباس کچھ یوں نقل کیا، ''آصفہ جان اخبار کی کلیپنگ اور اپنے شوہر عبدالقادر شیخ کے خون سے لت پت ان نوٹس کو اپنے پاس رکھتی ہیں جب بھارتی فوج نے انہیں ملیٹنٹ کے شبہے میں گولیوں سے بھون دیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ جو ذہنی اذیت اور تکلیف مجھے دی گئی، میں آج تک اس سے باہر نہیں نکل سکی۔''
کشمیر انتظامیہ کو اس طرح کی خبریں پسند نہیں اور اس طرح کی پوسٹس کو ملک مخالف قرار دے کر کارراوئی کی گئی ہے۔ پولیس نے اس سلسلے میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے مسرت کے خلاف مقدمے کی تصدیق کی اور ساتھ ہی عوام کو بھی خبردار کیا کہ ''وہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹز پر ''ملک مخالف'' پوسٹ کرنے سے باز رہیں، ورنہ ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔''
کشمیر پریس کلب نے مسرت زہراکے خلاف مقدمے کو غلط بتاتے ہوئے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہاار کیا اور کہا کہ تنظیم نے اس کارروائی کا بہت سخت نوٹس لیا ہے۔ کلب کے سیکرٹری اشفاق تانترے نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ کشمیری صحافیوں کو اکثر تھانوں میں طلب کر کے تنگ کیا جاتا ہے۔ ایک سوال کے جواب انہوں نے کہا، ''کشمیری صحافی بڑے بہادر ہیں، وہ مشکل حالات میں بھی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ انتظامیہ کسی نہ کسی سطح پر انہیں دبانے کی کوشش کر رہی ہوگی۔''
گزشتہ سنیچر کو کشمیر کے ایک اور معروف صحافی عاشق پیر زادہ کو بھی پولیس نے ان کی ایک خبر کے لیے پریشان کیا اور وضاحت کے لیے انہیں ساٹھ کلو میٹر دور اننت ناگ کے ایک پولیس اسٹیشن میں طلب کیا۔ پیر زادہ معروف انگریزی اخبار 'دی ہندو' کے لیے کام کرتے ہیں۔فوج اور ملیٹنٹ کے درمیان ایک تصادم کی خبر کے تعلق سے انہیں طلب کیا گیا تھا، لیکن پولیس نے ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تھانے میں حاضری کے لیے انہوں نے 120 کلو میٹر کا سفر کیا اور یہ ان کے لیے کسی سزا سے کم نہیں تھا۔