بھارتی آئین سے لفظ سوشلزم کو ہٹانے کی تیاری
19 مارچ 2020بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کے چیئرمین نے دائیں بازو کی سختگیر جماعت بی جے پی سے وابستہ رکن پارلیمان راکیش سنہا کی اس نوٹس کو منظور کر لیا ہے جس میں انہوں نے بھارتی آئین کے مقدمے میں شامل لفظ ’سوشلزم‘ کو ہٹانے کے لیے ایک قرارداد پیش کرنے کی بات کی ہے۔ مسٹر سنہا نے اس کے لیے اسپیکر سے اجازت طلب کی تھی اور وہ اس قرارداد کو جمعہ بیس مارچ کو پیش کرنے والے ہیں۔
راکیش سنہا کا تعلق سختگیر ہندو تنظیم آر ایس ایس سے رہا ہے اور راجیہ سبھا میں وہ بی جے پی کے رکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں سوشلزم اپنی اہمیت کھو چکا ہے اس لیے بھارتی آئین سے اسے باہر کر دینا چاہیے۔ بھارتی آئین کا دیباچہ کہتا ہے کہ ’’بھارت ایک خودمختار، سوشلسٹ، سیکولراور ڈیموکریٹک جمہوریہ ہے۔‘‘ لیکن راکیش سنہا کہتے ہیں کہ اب ’’اقتصادی معاملات پر غور و فکر کے لیے کسی خاص نظریے کے بغیر‘‘ جگہ پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ لفظ سوشلزم کو حذف کر دیا جائے۔
بھارتی آئین کے کردار کے تعارف کے لیے 'سیکولر اور سوشلسٹ' کا لفظ اندارا گاندھی کے دور میں بیالسویں ترمیم کے طور پر آئین کے مقدے میں شامل کیا گیا تھا اور اسے ایمرجنسی کے دوران منظور کیا گيا تھا۔ لیکن بہت سے لوگ اس کی مخالفت کرتے ہوئے آئین سے حذف کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ سن 2015 میں یوم جمہوریہ کے موقع پر بی جے پی کی حکومت نے اخبار میں جو اشتہار شائع کیے تھے اس میں یہ دونوں لفظ غائب تھے جس پر کافی تنازعہ کھڑا ہوا تھا۔
جب مسٹر سنہا سے یہ پوچھا گیا کہ آخر انہوں نے سوشلزم کو ہٹانے کی بات تو کی تاہم سیکولرازم کو ہٹانے کی مہم کیوں نہیں شروع کی تو انہوں نے کہا کہ سیکولر کے سوال پر اب بھی بہت سی آراء پائی جاتی ہیں،’’گرچہ یہ ہماری تہذیب و ثقافت کا حصہ ہے لیکن کچھ لوگوں کا خیال یہ ہوسکتا ہے کہ اس کی اب بھی ضرورت ہے، لیکن سوشلزم اب کسی بھی طرح سے اہم نہیں رہا۔‘‘ اس بل سے متعلق نوٹس کی منظوری کے بعد راجیہ سبھا نے اس تعلق سے منظور شدہ تمام قراردادوں کی نقلیں متعلقہ وزیر کے حوالے کر دی ہیں اور اگر وزیر چاہیں تو اس بارے میں ایک قانون وضع کیا جا سکتا ہے۔
لیکن آئینی ماہر اور سرکردہ وکیل وراگ کپتا کا کہنا ہے کہ آئین کے مقدمے میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کرنا آسان بات نہیں ہے اور اس کے لیے دو تہائی اکثریت چاہیے جو فی الوقت راجیہ سبھا میں بی جے کے پاس نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ ’’یہ سوشلزم کی مخا لفت کے لیے ایک علامتی قرارداد ہوسکتی ہے کیونکہ اگر حکومت کو ایسا کچھ کرنا ہوتا تو مسٹر سنہا کیبجائے بی جے پی کی حکومت اسے پارلیمان میں خود پیش کرتی۔‘‘
وراگ گپتا کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم اندرا گاندھی نے اس وقت اپنے سیاسی مفاد کے لیے آئین میں بہت سی ترامیم کی تھیں اور سوشلزم بھی اسی کا ایک حصہ تھا۔’’تو جو چیز آئین میں ترمیم کر کے لائی جا سکتی ہے وہ ترمیم کے ذریعے ہٹائی بھی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی اور یہ تبھی ممکن ہے جب دو تہائی اکثریت ہو اور راجیہ سبھا میں بی جے پی کے پاس ایسی اکثریت نہیں ہے۔‘‘
وراگ گپتا نے بتایا کہ سوشلزم ایک ایسی خاص معاشی و اقتصادی فکر کے معنے میں بھی استعمال ہوتا ہے جس کا تعلق روس اور چین سے رہا ہے اور موجودہ دور میں عالمی سطح پر معیشت اور کاروبار کسی ایک خاص فکر کے مرہون منت نہ ہوکر ایک بین الاقوامی ڈھانچے سے مربوط ہیں، تو زاویے سے بھی اب سوشلزم کی وہ اہمیت نہیں رہی جو ہوا کرتی تھی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے ماضی میں کئی ایسے فیصلے کیے ہیں جنہیں اپوزیشن جماعتیں، دانشور اور سرکردہ کارکن آئین مخالف بتاتے ہیں۔ چند ماہ قبل ہی حکومت نے شہریت سے متعلق جو نیا قانون منظور کیا ہے اس کے خلاف ملکی سطح پر احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں اور سپریم کورٹ میں اسے چیلنج کیا گيا ہے۔ کشمیر سے متعلق بھی حکومت کے اقدامات کو بعض حلقے آئین مخالف کہتے ہیں اور اس سے متعلق بھی سپریم کورٹ میں کئی درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ اب فیصلہ عدالت کو کرنا ہے اور سب کی اُمیدیں اسی سے وابستہ ہیں۔
صلاح الدین زین نئی دہلی