بھارتی انتخابات:تارکین وطن بی جے پی کے لیے کیوں اہم ہیں؟
10 اپریل 2024ایروناٹک انجینئر 26 سالہ رابن ایس کہتے ہیں، ''اگر میں ووٹ دے سکتا تو بی جے پی(بھارتیہ جنتا پارٹی) کو دیتا۔‘‘ جرمنی کے شہر ورزبرگ میں مقیم رابن نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،''میں خواہ کہیں بھی رہوں، میں ایک بھارتی ہوں اور وطن میں جو کچھ چل رہا ہے اس پر نگاہ رکھتا ہوں۔‘‘
مودی کو آئندہ انتخابی فتح کا یقین، وزراء کو نئے سالانہ اہداف تجویز کرنے کی ہدایت
بھارت: کیا حزب اختلاف کا اتحاد حکمراں بی جے پی کو قابو کر سکے گا؟
لیکن وہ بی جے پی کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال پر رابن پہلے تو تھوڑا سوچتے ہیں، پھر بھارت میں قومی سلامتی، ڈیجیٹل فائنانس اور انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے ہندو قوم پرست جماعت کے اقدامات کی فہرست گنانے لگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''کووڈ انیس اور روس یوکرین جنگ جیسے بحران کے باوجود بی جے پی (حکومت) نے مہنگائی کو موثر طریقے سے کنٹرول کیا ہے۔‘‘ تاہم وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ بہتری کی اب بھی بہت کچھ گنجائش موجود ہے۔
بیرون ملک انتخابی مہم
دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں 19اپریل سے تقریباً دو ماہ تک چلنے والے طویل عام انتخابات کی مہم زوروں پر ہے۔ بی جے پی کا چہرہ، وزیر اعظم نریندر مودی تیسری مدت کے لیے فائز ہونے کی امید کر رہے ہیں۔
مودی اور ان کے حریفوں کو بھی امید ہے کہ وہ بیرون ملک بھارتی کمیونٹیز میں حمایت حاصل کریں گے۔ حالانکہ رابن ایس جیسے بیرون ملک مقیم بھارتیوں (این آر آئی) کو بھارتی قانون کے مطابق بیرون ملک سے ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔ انہیں ووٹر کے طورپر بھارت میں اندراج کرانا ہو گا اور پولنگ بوتھ پر خود جا کر ووٹ ڈالنا ہو گا۔
بھارتی کشمیر میں عام انتخابات کی ہلچل اور سیاسی انتشار
بی جے پی کا الیکشن میں کامیابی کے لیے سوشل میڈیا انفلونسرز کا استعمال
صرف ووٹ ڈالنے کے لیے بھارت کا سفر کرنا بہت سے بھارتیوں کے لیے ایک مشکل کام ہے۔ بی جے پی کے خارجی امور کے چیف کوارڈینیٹر وجئے چوتھائی والا کا تاہم کہنا ہے کہ ان میں سے بہت سے این آر آئی اپنے اپنے ملکوں میں ریلیوں، کمیونٹی میٹنگوں اور دعائیہ تقاریب کا اہتمام کریں گے، جن میں مودی کی تیسری مدت کے لیے دعائیں کی جائیں گی۔
چوتھائی والا نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''کمیونٹیز اس وقت فرانس، لندن اور امریکہ کے دس شہروں میں کار ریلیوں کا انعقاد کررہی ہیں۔ تقریباً 250 کاروں کے قافلے نے لندن میں پریڈ کی، جن پر بھارتی پرچم اور وزیر اعظم مودی کی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔‘‘
چوتھائی والا کے مطابق کچھ این آر آئی اپنے آبائی وطن واپس جانے اور انتخابی مہم میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''ان میں سے بیشتر کے اب بھی مادر وطن کے ساتھ مضبوط رشتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بی جے پی کا اقتدار میں رہنا ملک کے لیے اچھا ہوگا اور بدلے میں یہ خود ان کے لیے بھی اچھا ہوگا۔‘‘
مودی حکومت میں قوم پرستوں کے اثرو رسوخ میں اضافہ
ٹورنٹو یونیورسٹی میں پروفیسر سنجے روپاریلیا کے مطابق انتخابی موسم کے دوران بھارتی تارکین وطن کی اہمیت علامتی قدر سے زیادہ ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''بھارت کے شہری جو بیرون ملک رہتے ہیں، پارٹیوں کے لیے فنڈز فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔‘‘
سیاسی تجزیہ کار روپاریلیا تسلیم کرتے ہیں کہ بھارت کی جدید تاریخ کے بیشتر عرصے میں تارکین وطن کا اثر و رسوخ معمولی رہا ہے لیکن سن 2014 میں مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ یکسر بدل گیا۔ بی جے پی اور ہندو قوم پرستوں کی تنظیموں کے نیٹ ورک ''سنگھ پریوار‘‘ کو تارکین وطن کے ایک حلقے سے سیاسی اور مالی مدد مل رہی ہے۔
روپاریلیا کہتے ہیں، ''بااثر این آر آئیز اپنے میزبان ملک کے نمائندوں اور حکومتوں کے لیے اہم لابی کے طورپر کام کرتے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ تارکین وطن ہر سال اربوں ڈالر ترسیل زر کے طورپر بھیجتے ہیں اور ان رقومات کا ایک قابل ذکر حصہ سیاسی جماعتوں کے زیر اہتمام ثقافتی اقدامات کو جاتا ہے۔
ووٹوں کے اتار چڑھاؤ میں انفلوئنسرز کا کردار
بی جے پی کے رہنما چوتھائی والا اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ پارٹی بیرون ملک بھارتیوں سے بڑے پیمانے پر فنڈ حاصل کررہی ہے۔ وہ کہتے ہیں،''بالکل نہیں، بی جے پی این آر آئیز سے فنڈ حاصل کرنے کی کوئی مہم نہیں چلاتی ہے۔ صرف انفرادی طور پر چھوٹے عطیات قبول کیے جاتے ہیں۔ البتہ بی جے پی کے لیے ان کا سب سے بڑا تعاون ان کی جانب سے ملنے والا وقت، توانائی اور مہارت ہے۔‘‘
ایک اور عنصر بھارتی تارکین وطن پر وزیر اعظم مودی کا اثر ور سوخ ہے۔ روپاریلیا کہتے ہیں کہ بیرون ملک رہنے والے بھارتی اکثر وزیر اعظم کے سفارتی دوروں کے دوران مودی کی تقریریں سننے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ''ان (مودی)کے بین الاقوامی سفر، غیر ملکی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں اور بڑے بڑے اجتماعات بھارت کے اندر اور باہر ایک مضبوط سیاست دان کے طور پر ان کی شبیہ کو تقویت دیتے ہیں۔‘‘
’بھارتی معاشرہ پولرائزڈ ہوگیا ہے‘
مودی کے حریفوں کی جانب سے اندرون ملک ان کے خلاف الزامات اور مغربی حکومتوں کی جانب سے بی جے پی پر نکتہ چینی کے باوجود ہندو قوم پرست رہنما کی مقبولیت برقرار ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی ہندو قوم پرست ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں، جس سے بھارت کی سکیولر بنیاد کو ختم کرنے، مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے جگہ تنگ کرنے اور ملک کو ہندو ملک بنانے کے قریب لے جانے کا خطرہ ہے۔
ہیمبرگ میں مقیم امریتا نارلیکر کہتی ہیں کہ بھارت کی متحرک جمہوریت کو مغرب میں اکثر غیر منصفانہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے تارکین وطن دفاع کرنے پر اتر آتے ہیں۔
رابن ایس جیسے نوجوان اور تعلیم یافتہ تارکین وطن مغرب میں بی جے پی کی جانے والی تنقید سے بخوبی واقف ہیں۔ اس کے باوجود وہ بی جے پی کے حامی ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ان کا خاندان بھی بی جے پی کی حمایت کرتا ہے، جو پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالنے نکلیں گے کیونکہ ''اس الیکشن میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔‘‘ لیکن اس کے باوجود حکمراں جماعت کے متعلق ان کے کچھ تحفظات بھی ہیں۔
رابن کہتے ہیں، ''میں نے دیکھ لیا ہے کہ وہ خامیوں سے پاک نہیں ہے۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد مذہبی اور دائیں بازو کے انتہاپسندانہ جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ ہمارا معاشرہ اس وقت کافی پولرائزڈ ہے۔‘‘
ج ا/ ع ت (شرستی پال)