بھارتی ریاست میں سیکس کی خریداری جرم قرار
15 جنوری 2018بھارت میں انسانی تجارت، جنسی استحصال اور قحبہ خانوں میں کاروبار کے حوالے سے سخت قوانین موجود تو ہیں لیکن ان کے استعمال پر سوالیہ نشان ہے۔ اس کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف بھی وقتاﹰ فوقتاﹰ کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں تاہم اب تک ایسا نہیں ہوا تھا کہ ان قحبہ خانوں میں سیکس کے لیے رخ کرنے والوں کے خلاف بھی کوئی کارروائی کی جاتی ہو۔
بھارت میں خواتین اور بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والی ایک وفاقی کمشنر، ایچ ارون کمار کے مطابق وہ افراد جو سکیس خریدتے ہیں، وہ اب تک بغیر کسی سزا کے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اس صوتحال کو تبدیل کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے اندھرا پردیش کی حکومت نے قانونی ماہرین اور انسانی تجارت کے خلاف مہم چلانے والوں پر مشتمل ایک پینل تشکیل دیا ۔ اس کا مقصد سیکس خریدنے والوں کو انسداد انسانی تجارت کے قوانین کے دائرے میں لانے کے لیے اپنی تجاویز پیش کرنے کی ہدایات دی گئیں تھیں۔
تھامس روئٹرز فاونڈیشن سے بات کرتے ہوئے پینل کی ممبر سنیتا کرشنن کا کہنا تھا کہ امید ہے اب صرف جنسی کاروبار کرنے والے ہی نہیں بلکہ وہ جو اس عمل میں ملوث ہوں، ان پر نئے ضوابط کا نفاذ کیا جا سکے گا۔ کرشنن کے مطابق جب تک سیکس خریدنے والوں کو مجرم خیال نہیں کیا جائے گا ، تب تک لڑکیوں کی خرید وفروخت کو روکا نہیں جا سکے گا۔
انسانی اسمگلنگ کا شکار بھارتی لڑکیاں اپنی شناخت کی تلاش میں
'بھارت کی لاکھوں لڑکیاں جسم فروشی پر مجبور‘
یاد رہے کہ ایک غیر سرکاری تنظیم کے 2013 میں جاری کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق بھارت میں 20 ملین سے زائد سیکس ورکرز موجود ہیں۔ ان میں سے 16 ملین خواتین اور لڑکیاں ہیں جو انسانی اسمگنلگ کا شکارہوئیں۔