1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی زہریلا فضلہ جرمنی لانے کا منصوبہ ناکام

25 ستمبر 2012

جرمن ادارے GIZ نے وہ معاہدہ منسوخ کر دیا ہے، جس کے تحت وہ بھارتی شہر بھوپال میں یونین کاربائیڈ کے تیس سال پہلے ایک ہولناک حادثے کا شکار ہونے والے اور اب متروکہ پلانٹ کے زہریلے کوڑے کو جرمنی لا کر ٹھکانے لگانا چاہتی تھی۔

https://p.dw.com/p/16CLq
تصویر: AP

بھارتی حکومت یونین کاربائیڈ کے کیڑے مار ادویات تیار کرنے والے متروکہ پلانٹ کے زہریلے فضلے کو ٹھکانے لگانے کے حوالے سے واپس پھر اُسی موڑ پر پہنچ گئی ہے، جہاں سے اُس نے اپنی کوششوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ بین الاقوامی تعاون کی جرمن انجمن GIZ نے اپنی وہ تجویز واپس لے لی ہے، جس میں 350 ٹن فضلے کو یورپ لانے اور اُسے محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کا ذکر کیا گیا تھا۔

بھارتی وزیر خزانہ پی چدمبرم کے نام ایک خط میں GIZ نے جرمن رائے عامہ کے احتجاج کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ طے شُدہ سمجھوتے پر عمل نہیں کر سکے گی۔ زہریلے کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے حوالے سے کئی عشروں کا تجربہ رکھنے والے ادارے GIZ نے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ جو فضلہ ٹھکانے لگانے جا رہا تھا، اُس کا تعلق 1984ء میں ہونے والے حادثے سے نہیں بلکہ اُس سے پہلے کے دور سے ہے۔

1984ء میں یونین کاربائیڈ کے کارخانے میں حادثے کے نتیجے میں تقریباً ساڑھے تین ہزار انسان فوری طور پر ہلاک ہو گئے تھے
1984ء میں یونین کاربائیڈ کے کارخانے میں حادثے کے نتیجے میں تقریباً ساڑھے تین ہزار انسان فوری طور پر ہلاک ہو گئے تھےتصویر: AP

واضح رہے کہ 1984ء میں یونین کاربائیڈ کے کارخانے کی ایک سٹوریج ٹینکی میں شگاف ہو جانے سے انتہائی زہریلی گیسیں خارج ہوئی تھیں اور آس پاس کی کچی بستیوں میں بسنے والے تقریباً ساڑھے تین ہزار انسان فوری طور پر ہلاک ہو گئے تھے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس حادثے کے اثرات کے سبب 2007ء تک اموات کی تعداد پندرہ ہزار سے تجاوز کر گئی تھی۔ متاثرین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کے اندازے اس سے دگنے ہیں۔

بھوپال میں یونین کاربائیڈ کا یہ کارخانہ اپنی زنگ آلود ٹینکیوں کے ساتھ آج کسی بھوت بنگلے کی طرح ویران نظر آتا ہے۔ اس کے آس پاس بسنے والے انسان آج بھی تقریباً تین عشرے پہلے پیش آنے والے حادثے کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکے ہیں اور ابھی بھی زرِ تلافی کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئےہیں۔

بھوپال گروپ فار انفارمیشن اینڈ ایکشن کی حمیدہ بی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا:’’فیکٹری کے نواح میں رہنے والے ابھی بھی تکلیف برداشت کر رہے ہیں۔ زیر زمین آلودہ پانی ابھی بھی بھوپال کے شہریوں کو متاثر کر رہا ہے۔ اب حکومت کو متبادل ذرائع تلاش کرنے چاہییں۔‘‘

1984ء کے حادثے میں اپنی تقریباً ساٹھ فیصد بینائی سے محروم ہو جانے والے عبد الجبار خان نے ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے کہا:’’اب دیکھتے ہیں کہ حکومت کیا کرتی ہے۔ پہلے اُنہوں نے یہ کہہ کر ہمیں مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی کہ اِس فُضلے کو یہاں سے ہٹا دیا جائے گا۔ ظاہر ہے، دوسرے ممالک کی حکومتیں بھی جانتی ہیں کہ متاثرین ابھی تک پریشان ہیں اور بھارتی حکومت نے اُن کی مدد کے لیے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔‘‘

بھارتی وزیر خزانہ پی چدمبرم
بھارتی وزیر خزانہ پی چدمبرمتصویر: UNI

بھارتی حکومت نے GIZ کے فیصلے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے تاہم سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ ایک نگران و مشاورتی کمیٹی نے اس زہریلے فضلے کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کے سلسلے میں ٹیکنیکل ماہرین سے مشورہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایک حکومتی عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا:’’ہم ٹیکنیکل ماہرین سے مشورہ کریں گے کہ اس فضلے کو ملک کے اندر ہی موجود مختلف مراکز میں ٹھکانے لگانے کے کیا امکانات ہیں۔ آج کل ملک کے اندر زہریلے فضلے کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کے 27 مراکز کام کر رہے ہیں۔‘‘

کچھ تجزیہ کاروں کے خیال میں جرمنی میں غالباً گرین پیس اور BUND جیسی قدرتی ماحول کے تحفظ کی علمبردار تنظیموں کے احتجاج نے GIZ کو اپنے منصوبوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ہے۔

GIZ کا منصوبہ یہ تھا کہ بھوپال سے لائے ہوئے کیمیاوی زہریلے فضلے کو شمالی جرمن شہر ہیمبرگ کی ایک بھٹی میں جلا کر تلف کیا جائے۔ اِس مقصد کے لیے بھارتی ٹیکس دہندگان کو 3.4 ملین یورو کے برابر رقم ادا کرنا پڑتی۔

M.Krishnan/aa/km