بھارتی سپریم کورٹ: ہم جنس پرستی پر پابندی کے خلاف کیس خارج
29 جون 2016خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے کہا کہ انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 377 میں ترمیم کا حق صرف ملکی پارلیمان کو حاصل ہے، اس لیے سپریم کورٹ اس بارے میں کسی کیس یا قانونی درخواست کی سماعت نہیں کر سکتی۔
ملکی پینل کوڈ کے اس سیکشن کے تحت بھارت میں ہم جنس پرستی یعنی ’غیرقدرتی جنسی عمل‘ ایک قابل سزا جرم ہے۔ تاہم ہم جنس پرستوں اور مختلف جنسی میلانات رکھنے والے افراد اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوشاں حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون ان کے بنیادی جنسی حقوق کے خلاف ہے۔
سیکشن 377 میں واضح کیا گیا ہے کہ مردوں کا آپس میں جنسی عمل یا عورتوں کا آپس میں جسمانی ملاپ اور جانوروں کے ساتھ ایسا کوئی بھی عمل ممنوعہ اور قابل سزا جرم ہے۔ بھارت میں یہ قانون دراصل سن 1861میں برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے متعارف کرایا تھا۔
اس پٹیشن کو دائر کرنے والے وکیل اروند دتّر نے روئٹرز کو بتایا، ’’سپریم کورٹ نے اس درخواست کی سماعت سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس سے رجوع کیا جائے۔‘‘ یہ امر اہم ہے کہ بھارت کے چیف جسٹس پہلے ہی ایک ایسے ہی کیس کی سماعت کر رہے ہیں، جس میں اس سیکشن کے خلاف درخواست جمع کرائی گئی ہے۔
اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی میں ایسا قانون لاگو کرنا نامناسب عمل ہے کیونکہ کسی بھی جدید معاشرے میں اس قانون کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
2009ء میں نئی دہلی ہائی کورٹ نے تعزیرات ہند یا انڈین پینل کوڈ کے اسی سیکشن 377 کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ تاہم یہ فیصلہ چار سال بعد اُس وقت واپس لے لیا گیا تھا، جب سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کسی قانون میں ترمیم یا تنسیخ کا فیصلہ عدلیہ کا نہیں بلکہ پارلیمان کا کام ہے۔
بھارت میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران ہم جنس پرستوں کو معاشرے کا حصہ تسلیم کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ بالی وڈ میں کئی فلمیں ہم جنس پرستی کے موضوع پر بن چکی ہیں جبکہ مختلف جنسی میلانات اور رحجانات رکھنے والے افراد مختلف اجتماعات کا انعقاد بھی کرتے رہتے ہیں۔ تاہم بھارت کے اکثریتی طور پر قدامت پسند معاشرے میں ہم جنس پرستی کو تاحال شرم ناک عمل تصور کیا جاتا ہے۔