1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بی جے پی حکومت کا آسام میں تمام مدارس بند کرنے کا منصوبہ

صلاح الدین زین
17 مارچ 2023

ریاست آسام کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے اب تک چھ سو اسلامی مدارس بند کر دیے ہیں اور باقی ماندہ مدارس کو بھی بند کرنے کا منصوبہ ہے۔ 30 فیصد سے زیادہ مسلم آبادی والی اس ریاست میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت ہے۔

https://p.dw.com/p/4Op8y
Indien ASSAM Madrasah Studenten
تصویر: Prabhakar Mani Tewari/DW

بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما کا کہنا ہے کہ انہوں نے اب تک اپنی ریاست کے  600 مدارس کو بند کر دیا ہے اور وہ باقی ماندہ تمام مدارس کو بند کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ریاست کرناٹک میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کے دوران انہوں نے یہ بات کہی۔ 

بھارت میں ہزاروں مسلم کنبوں کو بے گھر کردیے جانے کا خدشہ

ریاست آسام میں سخت گیر ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت ہے، جہاں تقریبا 33 فیصد مسلمانوں کی بھی آبادی ہے اور ریاست کے وزیر اعلی ہمنتا بسوا سرمامسلم مخالف پالیسیوں کے لیے معروف ہیں۔

بھارت: آسام میں دو مسلمانوں کی  ہلاکت اور لاش کی بے حرمتی

وزیر اعلی نے سن 2020 میں ایک متنازعہ قانون متعارف کروایا تھا، جس کے تحت تمام سرکاری مدارس کو باقاعدہ اسکولوں میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، جس میں صرف حکومتی نصاب پڑھانے کی اجازت ہو گی۔

جیسے بابر، اورنگ زیب ختم ہو گئے اویسی بھی ختم ہو جائیں گے

 ان کا کہنا تھا کہ ''بنگلہ دیش سے لوگ آسام آتے ہیں اور ہماری تہذیب و ثقافت کے لیے خطرہ پیدا کرتے ہیں۔ میں نے 600 مدارس بند کر دیے ہیں اور میں تمام مدرسوں کو بند کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، کیونکہ ہمیں مدارس نہیں چاہیے۔ ہمیں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں چاہیں۔''

بھارت میں آبادی پر کنٹرول کے لیے پاپولیشن آرمی کا قیام

ماضی میں بھی ہمانتا بسوا سرما اکثر مدارس کو کم کرنے یا ان اداروں میں دی جانے والی تعلیم کی جانچ پڑتال کرنے کی خواہش ظاہر کرتے رہے ہیں۔ ریاست میں فی الوقت 3000 رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ مدارس ہیں۔

Indien ASSAM Madrasah Studenten
ماضی میں بھی ہمانتا بسوا سرما اکثر مدارس کو کم کرنے یا ان اداروں میں دی جانے والی تعلیم کی جانچ پڑتال کرنے کی خواہش ظاہر کرتے رہے ہیںتصویر: Prabhakar Mani Tewari/DW

گزشتہ برس پولیس نے بنگلہ دیش کے القاعدہ گروپ سے تعلق رکھنے والے پانچ ''جہادی'' ماڈیولز کا پردہ فاش کرنے کا دعوی کیا تھا اور تب وزیر اعلی نے کہا تھا کہ آسام ''جہادی سرگرمیوں '' کا گڑھ بن گیا ہے۔

وزیر اعلی کا کہنا ہے کہ ریاستی پولیس ''ان بنگالی مسلمانوں کے ساتھ کام کر رہی ہے، جو تعلیم کے تئیں مثبت رویہ رکھتے ہیں '' تاکہ مدارس میں ''اچھا ماحول'' پیدا کیا جا سکے۔

گزشتہ برس بی جے پی کی حکومت نے ریاست کی مساجد کے آئمہ اور مدارس کے اساتذہ سے متعلق ایک نیا حکم نامہ جاری کیا تھا، جس کے تحت ایسے تمام افراد کو، جن کا تعلق آسام سے نہ ہو، ریاستی حکومت کی ویب سائٹ پر خود کو لازماً رجسٹر کرانا ہو گا۔

گزشتہ برس جون میں ہیمنتا بسوا سرما نے کہا تھا کہ اقلیتی فرقے (مسلمانوں) کو اپنی غربت اور دھرتی پر بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کرنے کی خاطر فیملی پلاننگ کے مناسب طریقے اختیار کرنا چاہییں۔

بی جے پی بالخصوص آسام میں مبینہ طور پر غیر قانونی بنگلہ دیشی مسلمان تارکین وطن کے مسئلے کو ایک بڑے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور سکیورٹی مسئلے کے طور پر پیش کرتی رہی ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو اکثر تشدد کا نشانہ بھی بننا پڑتا ہے۔

مسلم سماجی اور سیاسی تنظیمیں ریاستی وزیر اعلیٰ کے مسلمانوں کے حوالے سے متنازعہ بیانات پر نکتہ چینی کرتی رہی ہیں۔ ان کے مطابق مساجد اور مدارس سے متعلق نئے ضوابط سے آسانیاں پیدا ہونے کے بجائے ریاست کے مسلمانوں کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔

لاکھوں مسلمان بھارتی شہریت سے محروم