بھارتی مسلمان خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ طلاق ثلاثہ نہیں!
20 دسمبر 2020تاہم سماجی، تعلیمی اور اقتصادی اعتبار سے مسلم عورتیں اپنی ہم وطن بہنوں سے کافی پسماندہ ہیں۔ اس کی تصدیق متعدد سرکاری اور غیر سرکاری جائزوں سے بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ مجھے امید تھی کہ بھارت کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں وفاقی حکومت نے، جو مسلم خواتین کا ”ہمدرد " ہونے کا دم بھرتی ہے، وہ ان کی مجموعی پسماندگی دور کرنے کی جہت میں اقدامات کرے گی۔
مگر میری جیسی خواتین کی یہ امیدیں اس وقت جاتی رہیں، جب گزشتہ سال اس نے مسلم خواتین کو اعتماد میں لیے بغیر بیک وقت کی تین طلاق کے رواج کے خاتمہ کے لیے قانون بنایا۔ یہاں تک تو معاملہ ٹھیک تھا مگر اس قانون کو، جو ایک دیوانی معاملہ ہے، فوجداری یا تعزیری قانون میں بدل دیا گیا۔ نہ صرف مسلم خواتین بلکہ حقوق نسواں کے لیے سرگرم تنظیموں نے بھی اس پر سخت اعتراض کیا تھا کہ اس طرح کا قانون تو مطلقہ مسلم خواتین کی بے چارگی اور بے بسی میں مزید اضافہ کرنے کاسبب بنے گا۔
اگر مطلقہ خاتون کا شوہر ہی جیل چلا جائے گا تواسے نان و نفقہ (اخراجات) کون ادا کرے گا؟ کیا مسلم خواتین کو طلاق کے اس نئے قانون کی ضرورت ہے؟ ان کے حقیقی مسائل اور مصائب کیا ہیں؟ یہ جاننے کے لیے میں نے دارالحکومت دہلی کے مسلم اکثریتی ضلع شمال مشرقی دہلی میں کئی خواتین سے بات کی۔ اس علاقہ میں امسال فروری میں منصوبہ بند خونریز مسلم کش فسادات کرائے گئے تھے، جس میں 54 جانیں گئیں اور ان میں بیشتر مسلمان تھے۔ فساد سے متاثرہ کئی مسلم خواتین اب بھی سہم زدہ ہیں اور اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کی جد وجہد کر رہی ہیں۔
بھارت: مسلم خواتین کی طاقت اور سیاسی نمائندگی کی مشکلات
خواتین ایک ساتھ تین طلاقوں کی مخالف
ان سب کا یہ شکوہ تھا کہ انہیں وہ بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں، جو ان کی غیر مسلم بہنوں کو میسر ہیں۔ انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ ہسپتالوں میں انہیں مذہبی شناخت اور جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جب میں طلاق کے نئے قانون کے حوالے سے ان خواتین کی رائے جاننے کی کوشش کی تو ان کا جواب تھا کہ طلاق ثلاثہ ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ جب ملک کی سپریم کورٹ نے طلاقہ ثلاثہ (یکبارگی) کو 22 اگست 2017 اپنے ایک فیصلے میں کالعدم قرار دیا ہے تو اس پر قانون سازی کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ ہمیں تو یہ توقع تھی کہ حکومت ہمارے حقیقی مسائل کی طرف توجہ دے گی۔
دہلی اقلیتی کمیشن کی طرف سے مسلم خواتین کی مجموعی حالت اور محرومیوں کا پتہ لگانے کے لیے ایک سروے کیا گیا تھا۔ سروے میں یہ حقیقت افشاں ہوئی تھی کہ مسلم خواتین کے طلاق سے بڑے دیگر مسائل ہیں۔ اس سروے کے مطابق طلاق ثلاثہ ایک سماجی برائی ہے، جس کا استعمال عموماً مسلم معاشرے میں اقتصادی طور پر کمزور طبقات کا ایک چھوٹا سا حصہ کرتا ہے۔ اس سے اس پروپیگنڈے کی نفی ہوتی ہے کہ مسلمان چار چار شادیاں کر کے اس ملک (بھارت) میں اکثریت میں آنا چاہتے ہیں اور ہندو خطرے میں ہیں۔ جبکہ اس سروے میں کہا گیا کہ پورے ملک میں ایک سے زائد بیویاں رکھنے کا رجحان اور رواج غیر مسلموں میں زیادہ ہے۔
بھارت میں صنفی توازن ایک مسئلہ ہے مگر یہاں طبقہ اناث کی تعداد زیادہ ہے۔ 65.3 فیصد کیسز میں خاندان میں صرف ایک بالغ مرد پایا گیا۔ جبکہ 600 خاندانوں میں سے 71خاندانوں میں کوئی بھی بالغ مرد نہیں تھا۔ نیز مسلم خواتین میں بے روزگاری کی شرح بھی تشویش ناک ہے۔ 9.2 فی صد خواتین نے کہا کہ وہ کچھ کام کرتی ہیں تاہم انہیں سرکاری طور پر مقرر کردہ کم ازکم یومیہ اجرت سے بھی کم اجرت ملتی ہے۔
تعلیم کے حوالے سے معلوم ہوا کہ 36 فیصد بالغ عورتیں لکھنا اور پڑھنا نہیں جانتی ہیں اور معاشی مسائل کی وجہ سے وہ تعلیم حاصل نہیں کر پائیں۔ مسلم علاقوں کی محض 1.3 فی صد خواتین پوسٹ گریجویٹ ہیں جبکہ 8.7 فی صد گریجویٹ ہیں۔ ان کی اکثریت سرکار ی اسکولوں میں پڑھی ہے، جو ہندی میڈیم کے اسکول ہیں۔ تعلیمی پسماندگی کی ایک اہم وجہ معاشی پسماندگی ہے، نیز مسلم علاقوں میں تعلیم کی بہتر سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔
ابھی تک فسادات کے نتیجے میں لڑکیاں تعلیم کے لیے باہر کے علاقوں میں جانے سے ڈرتی ہیں۔ لیکن میرا یہ مشاہدہ ہے کہ حکومتیں ان اصل مسائل کی طرف توجہ نہیں دیتی، جن میں انہیں اپنا کوئی سیاسی فائدہ نظر نہیں آتا۔ مودی حکومت نے بھی یہی کیا ہے۔ انہیں طلاق ثلاثہ میں اپنا سیاسی فائدہ نظر آیا اور اسے وہ اصل مسئلہ سمجھتے ہیں۔ میری نظر میں اصل مسئلہ مسلمان خواتین کو تعلیم کے میدان میں آگے لانے اور انہیں خودمختار بنانے کا ہے۔