بھارتی نژاد امریکی ارب پتی کی سیاست میں انٹری اور مقبولیت
25 اگست 2023امریکہ میں آئندہ برس کے صدارتی انتخابات کے لیے ریپبلکن پارٹی کے ممکنہ آٹھ امیدواروں کے درمیان پہلی بار گزشتہ بدھ کے روز مباحثہ ہوا۔ چونکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس میں شریک نہیں ہوئے، اس لیے اس کا تذکرہ اسی حوالے سے زیادہ ہوا۔
ٹرمپ کا ابتدائی ری پبلکن مباحثوں میں حصہ نہ لینے کا اعلان
تاہم اس میں شریک ہونے والے آٹھ امید واروں میں سے ایک بھارتی نژاد امریکی کاروباری شخصیت وویک راماسوامی کی شرکت سے اب اس مباحثے کے کافی چرچے ہو رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ پر انتخابات میں مداخلت کرنے کا الزام، فرد جرم عائد کر دی گئی
گرچہ ریپبلکن جماعت میں ارب پتی راما سوامی اب تک گمنام رہے تھے، لیکن اس پہلے مباحثے کے بعد ان کی مقبولیت میں اضافے کی اطلاعات ہیں اور بھارتی میڈیا میں بھی ان کا کافی تذکرہ ہو رہا ہے۔
ایمیزون سے وال مارٹ تک: بھارت میں امریکی سرمایہ کاری، مودی کی چاندی
راما سوامی کی مہم کی ٹیم کے مطابق بحث کے بعد پہلے گھنٹے میں ہی انہیں ساڑھے چار لاکھ امریکی ڈالر سے بھی زیادہ کی رقم بطور عطیہ موصول ہوئی۔
امریکی وسط مدتی انتخابات میں جارجیا کی سیٹ ڈیموکریٹس کا قبضہ برقرار
بحث کے دوران سوامی کے تین سیاسی حریفوں، نیو جرسی کے سابق گورنر کرس کرسٹی، سابق نائب صدر مائیک پینس اور جنوبی کیرولائنا کی گورنر نکی ہیلی، نے ان پر شدید حملہ کرنے کی کوشش کی تاہم انہوں نے اس کا بہترین انداز میں جواب دے کر کافی پذیرائی حاصل کی۔
راما سوامی کون ہیں؟
رام سوامی 9 اگست 1985 کو اوہائیو میں ایک تمل ہندو برہمن خاندان میں پیدا ہوئے تھے اور ان کی پرورش اوہائیو میں ہی ہوئی۔ ان کے خاندان کا تعلق بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ سے ہے اور ان کے والدین ضلع پلکاڈ سے ہجرت کر کے امریکہ پہنچے تھے۔
رام سوامی نے ہارورڈ اور اییل جیسی معروف یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی۔ بعد میں انہوں نے بائیو ٹیکنالوجی کے شعبے میں کاروبار شروع کیا اور کافی دولت کمائی۔
اس کے بعد انہوں نے جائیدادوں کا انتظام و انصرام کرنے والی ایک کمپنی کی بھی بنیاد ڈالی۔ وہ ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔
امریکہ میں آئندہ صدارتی انتخاب کے لیے ریپبلیکن پارٹی کے جو صدارتی امیدوار اب تک میدان میں آئے ہیں، ان میں سے دو بھارتی نژاد امریکی شہری ہیں۔ اس میں ایک معروف چہرہ نِکی ہیلی کا ہے، جو فی الوقت گورنر کے عہدے پر فائز ہیں۔ تاہم وِویک راما سوامی کو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
راما سوامی نے رواں برس کے اوائل میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران صدارتی امیدوار کی دوڑ میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت انہوں نے ویڈیو پر اپنا ایک پیغام بھی جاری کیا، جس میں اپنے سیاسی خیالات کا اظہار کیا تھا۔
تاہم انہیں سیاست کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور انہوں نے پہلے کبھی کوئی سیاسی عہدہ بھی حاصل نہیں کیا ہے۔ وہ پارٹی کے رکن ضرور ہیں، تاہم انہوں نے انتخابات کے ذریعے کوئی نمائندگی نہیں کی ہے۔
بحث کے بعد مقبولیت میں اضافہ
دیگر امیدواروں کے برعکس پہلے مباحثے سے پہلے تک راما سوامی کو کوئی جانتا تک نہیں تھا، تاہم بحث کے ایک روز بعد ایکسس نام ادارے نے رائے شماری کے جائزوں کی بنیاد پر بتایا کہ پہلی پوزیشن حاصل کر کے وہ نمبر ون رہے۔
سروے میں کہا گیا کہ 504 جواب دہندگان میں سے 28 فیصد نے کہا کہ راما سوامی نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ان کے بعد فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹس 27 فیصد اور پینس 13 فیصد کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔ نکی ہیلی کو صرف سات فیصد ووٹ ملے۔
فوکس نیوز کے مطابق راما سوامی پہلے ریپبلکن صدارتی مباحثے کے لیے گوگل پر سب سے زیادہ سرچ کیے جانے والے امیدوار بھی تھے۔ اس فہرست میں نکی ہیلی دوسرے نمبر تھیں۔
وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق، ''وویک راما سوامی نے ریپبلکن پرائمری کے پہلے مباحثے میں خصوصی توجہ حاصل کی۔''
واضح رہے کہ اخبار نے اپنے ایک اداریے میں لکھا تھا کہ ان خارجہ پالیسی تنقید کی زد میں ہے اور شاید اس کی وجہ سے وہ وائٹ ہاؤس نہیں جا سکیں گے۔
اخبار نے لکھا کہ 38 سالہ نا تجربہ کار سیات دان راما سوامی نے بدھ کے پرائم ٹائم جی او پی صدارتی مباحثے میں سب سے زیادہ توجہ حاصل کی۔ تاہم اس بات کا بھی امکان بہت کم ہے انہوں نے یا کسی دوسرے دعویدار نے فرنٹ رنر ڈونلڈ ٹرمپ کو پیچھے چھوڑنے کے لیے کوئی نئی حکمت عملی اپنائی ہو۔''
بیشتر امریکی امریکی میڈیا میں راما سوامی کے تذکرے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ پہلے راؤنڈ میں انہیں اپنے دیگر مد مقابل کے مقابلے میں خاطر خواہ کامیابی ملی۔ یہ ان کی حاضر جوابی کی وجہ سے بھی ہوا تاہم یوکرین کے حوالے سے ان کی پالیسی شاید امریکیوں پسند نہیں آئے گی اور بہت جلد ہی وہ اس دوڑ سے باہر ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ وہ یوکرین کو روس کے حوالے کرنے کی بات کہہ چکے ہیں اور ملک میں ثقافتی انقلاب کے ذریعے وہ امریکہ کی قسمت بدلنے کی بات کرتے ہیں۔