بھارتی گجرات میں غیر گجراتیوں کے خلاف تشدد کا سلسلہ تیز
8 اکتوبر 2018ذرائع کے مطابق گجرات چھوڑ کر اب تک کم از کم پچاس ہزار افراد کے بہار، اترپردیش، مدھیہ پردیش اور شمالی بھارت کے دیگر صوبوں میں اپنے آبائی وطن لوٹ جانے کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ تشدد پر قابو پانے کے لیے پولیس نے مختلف علاقوں میں فلیگ مارچ کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ سیکورٹی فورسز کی سترہ کمپنیاں مختلف علاقوں میں تعینات کی گئی ہیں۔ فیکٹریوں اور غیر گجراتی اکثریتی علاقوں میں سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ دریں اثنا اس معاملے پر سیاست بھی شروع ہوگئی ہے۔ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اور اپوزیشن کانگریس اس تشویش ناک صورت حال کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرارہے ہیں۔
کانگریس کی ترجمان پرینکا چترویدی نے یہاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے غیر گجراتیوں کو ڈرانے دھمکانے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اگر وزیر اعظم نریندر مودی اور گجرات کے وزیر اعلی وجے روپانی غیر گجراتیوں کو سیکورٹی نہیں دے سکتے تو انہیں اقتدار سے ہٹ جانا چاہیے۔ محترمہ چترویدی کا کہنا تھا، ’’آخر اس طرح کے واقعات بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں ہی کیوں ہورہے ہیں۔ بی جے پی کو سمجھنا چاہیے کہ دوسری ریاست کے لوگ جب کسی ریاست میں جاتے ہیں تو وہاں کی معیشت کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ گجرات میں گزشتہ بائیس برس سے بی جے پی کی حکومت ہے اور وہا ں دیگر ریاستوں کے لوگوں کے خلاف ایک ماحول بنایا گیا ہے۔‘‘
دوسری طرف بی جے پی کے سینیئر رہنما اور مرکزی وزیر گری راج سنگھ کا کہنا تھا، ’’ گجرات میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے لیے کانگریس ذمہ دار ہے۔ کانگریس صدر راہل گاندھی کے پاس کوئی موضوع نہیں ہے اس لیے وہ ذات پات کے نام پر لوگوں کو بھڑکارہے ہیں۔ دراصل کانگریس ملک کوٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہے۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر علاقائیت کا یہ زہر پھیل گیا تو گجرات تباہ ہوجائے گا اور یہ صرف گجرات تک ہی محدود نہیں رہے گا کیوں کہ گجراتیوں کی بڑی تعداد ملک کے بیشتر ریاستوں بالخصوص بہار ،اترپردیش، مدھیہ پردیش اور راجستھان وغیرہ میں رہتی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں ہندی بولنے والے یا غیر گجراتیوں کے خلاف تشدد اور حملوں کے ان واقعات نے ماضی میں مہاراشٹر اور اقتصادی دارالحکومت کہے جانے والے ممبئی میں بالخصوص بہار اور اترپردیش کے لوگوں کے خلاف مہاراشٹر کی ہندو قوم پرست جماعت شیو سینا کی طرف سے ہونے والے تشدد کے واقعات کی یادیں تازہ کردی ہیں۔
تشددکا یہ سلسلہ تقریباً دس روز قبل اس وقت شروع ہوا، جب 28 ستمبر کو ایک چودہ ماہ کی بچی کواپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے الزام میں بہار کے رویندر ساہو نامی ایک نوجوان کو گرفتار کیا گیا۔ اس واقعہ کے بعدگجرات کے کم از کم سات شہروں میں شمالی بھارت کے لوگوں کے خلاف تشدد اور مار پیٹ کے متعدد واقعات رونما ہوئے۔ اس دوران سوشل میڈیا پر شمالی بھارتیوں کے خلاف نفرت آمیز پیغامات اور ویڈیو کا سیلاب سا آ گیا ۔حالانکہ غیر گجراتیوں کا کہنا ہے کہ قصوروار کو اس کی کئے کی قانونی سزا ملنی چاہیے۔
ایسے غیر گجراتی بھی اپنی جان بچانے کے لیے اب گجرات چھوڑ نے پر مجبور ہوگئے ہیں، جو وہاں گزشتہ تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے رہ رہے تھے اور جنہوں نے گجرات کی اقتصادی ترقی میں، جس کا وزیر اعظم نریندر مودی اپنی تقریروں میں بار بار ذکر کرتے رہتے ہیں، نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ گجرات سے بہار اور اترپردیش آنے والی جو ٹرینیں عموماً خالی رہتی تھیں، اب ان میں اب تل رکھنے کی جگہ نہیں مل رہی ہے۔ یہ لوگ اپنی جان کے خوف اور مکان مالکوں کے ذریعہ گھر خالی کرنے کے حکم کے بعد کسی طرح گجرات سے نکل جانا چاہتے ہیں۔
شمالی بھارت کے لوگوں کی نقل مکانی کی وجہ سے گجرات کی اقتصاد ی صورت حال بھی متاثر ہورہی ہے۔کئی فیکٹریاں بند ہوچکی ہیں۔گجرات چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے ریاستی وزیر اعلی وجے روپانی کو خط لکھ کر اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے فوراً روکنے کی اپیل کی ہے۔
کانگریس کے ایک دیگر سینیئر لیڈر اور ممبئی کانگریس کمیٹی کے صدر سنجے نروپم نے ٹوئٹ کیا، ’’وزیراعظم کی آبائی ریاست (گجرات) میں اگر اتر پردیش،بہار اور مدھیہ پردیش کے لوگوں کو مارمار کر بھگایاجائے گا تو ایک دن مسٹر نریندرمودی کوبھی وارانسی جانا ہے ، انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے۔ وارانسی کے لوگوں نے انہیں گلے لگایا اور وزیراعظم بنایا تھا۔‘‘
سنجے نروپم نے گجرات کے ڈائریکٹر جنرل پولیس کے اس دعوی کی بھی تردید کی کہ بہار اور اترپردیش کے لوگ تہواروں کی وجہ سے اپنے آبائی ریاستوں کو جارہے ہیں۔ نروپم کا کہنا تھا، ’’یہ ایک بڑا جھوٹ ہے۔ دیوالی اور چھٹھ کی چھٹیاں ایک ماہ بعد شروع ہوں گی، ابھی نہیں۔ بی جے پی انہیں آبائی ریاست جانے کے لیے مجبورکرہی ہے اور بدنام کانگریس کو کیاجارہا ہے۔مودی جی، اس طرح کی گندی سیاست بندکریں۔‘‘
اس دوران گجرات کے وزیر داخلہ پردیپ جڈیجا کا کہنا تھا کہ تشدد اور حملوں کے سلسلے میں بیالیس رپورٹیں درج کی جا چکی ہیں اور اب تک چارسو پچاس سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے گجرات کے اپنے ہم منصب سے بات کی ہے او ربہاریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غیر گجراتیوں کے خلاف تشدد کا ایک سبب یہ ہے کہ آج گجرات میں لوگوں کو ملازمت نہیں مل رہی ہے جبکہ جتنے کم پیسے اور مشکل حالات میں غیر گجراتی مزدور کام کررہے ہیں وہ گجراتیوں کے بس کا نہیں ہے۔
دوسری طر ف ریاستی وزیر اعلی نے پچھلے ماہ ایک ایسا قانون لانے کی بات کہی تھی، جس میں ریاست کی انڈسٹریز میں گجراتیوں کے لیے اسی فیصد ملازمت کو یقینی بنایا جائے گا۔ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسے عملی طور پر نافذ کرنا بہت مشکل ہے کیوں کہ جن استحصالی حالات میں غیر گجراتی مزدور کام کرلیتے ہیں وہ گجراتیوں کے لیے ناممکن ہے۔