بھوک کے مسئلے پر تین روزہ عالمی کانفرنس کا آغاز
16 نومبر 2009اطالوی دارالحکومت روم میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والی کانفرنس سے کا افتتاح اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج دنیا میں قریب ایک بلین انسانوں کو خوراک کی کمی اور بھوک کے مسئلے کا سامنا ہے، اور ان حالات میں بہتری کے لئے بین الاقوامی برادری کو فوری طور پر اس طرف بھر پور توجہ دینا ہو گی۔
عالمی ادارے کے سیکریٹری جنرل نے اطالوی دارالحکومت میں اس کانفرنس کے مندوبین سے اپنے خطاب میں کہا کہ دنیا میں بھوک کا مسئلہ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ بان کی مون نے کہا کہ تحفظ ماحول کی کامیاب کوششوں کے بغیر دنیا میں خوراک کی دستیابی کی موجودہ غیر تسلی بخش صورت حال کو بہتر نہیں بنایا جا سکے گا۔
بان کی مون کا یہ مئوقف اس لئے بھی منطقی ہے کہ سن 2050 تک دنیا کی مجموعی آبادی قریب 9.1 بلین ہو جائے گی، اور تب تک خوراک کی عالمی ضروریات میں بھی اب تک کے مقابلے میں 70 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہو گا۔
آج اس کانفرنس کے پہلے روز شرکاء میں اس اجتماع میں منظوری کے لئے تیار کی گئی ایک قراداد کا مسودہ بھی تقسیم کیا گیا، جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دنیا سے بھوک اور خوراک کی کمی کے خاتمے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جانا چاہیئں۔
روم کی اسی کانفرنس کے حوالے سے بین الاقوامی فنڈ برائے زراعت اور ترقی کے سربراہ کانایو نوانزے نے کہا ہے کہ ترقی پذیر ریاستوں کے مسائل کے حل کے لئے صرف انہیں دی جانے والی مالی امداد ہی کافی نہیں ہو گی۔ "میری رائے میں یہ توقع کرنا غلط ہو گا کہ ترقی یافتہ ملکوں کی طرف سے ترقی پذیر ریاستوں کو دی جانے والی مالی امداد کے ذریعے اِن ملکوں کو اس قابل بنایا جا سکے گا کہ وہ اپنے ہاں اتنی خوراک پیدا کر سکیں جو اُن کی جملہ ضروریات کو پورا کر سکنے کے لئے کافی ہو۔"
روم کی اس کانفرنس میں کئی بہت اہم ملکوں کے مرکزی رہنما حصہ نہیں لے رہے، بلکہ اِن ملکوں کی نمائندگی اعلیٰ ریاستی یا حکومتی اہلکار کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے بین الاقوامی طبی امدادی تنظیم ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے کہا ہے کہ صنعتی ترقی یافتہ اور زیادہ باوسائل ملکوں کے لئے یہ کانفرنس کتنی اہم ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ادارہ برائے خوراک و زراعت کے رکن ملکوں کی تعداد 193 ہے، لیکن اس سمٹ میں صرف 60 ملکوں کے سربراہان حصہ لے رہے ہیں۔
رپورٹ: نازیہ جبیں
ادارت: مقبول ملک