1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھگوان رام کی شہریت پر تنازعہ، بھارتی تھے یا نیپالی؟

جاوید اختر، نئی دہلی
14 جولائی 2020

نیپالی وزیر اعظم کھڑک پرساد شرما اولی کے اس دعوے کے بعد کہ ہندووں کے بھگوان رام بھارتی نہیں نیپالی تھے،دونوں ملکوں کے درمیان اب ایک نیا اور مذہبی تنازعہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3fIAx
Nepal Premierinister Khadga Prasad Sharma Oli tritt zurück
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Shrestha

بھارت میں حکمراں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی، دیگر ہندو تنظیموں اور جماعتوں نے اولی کے بیان کی زبردست نکتہ چینی کی ہے۔ اس نئی پیش رفت سے دونوں پڑوسی ملکوں کے مابین پہلے سے ہی کشیدہ تعلقات میں مزید تلخی پیدا ہوسکتی ہے۔

کمیونسٹ رہنما اور نیپالی وزیر اعظم اولی نے گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”بھگوان رام نیپال کے اجودھیا گاوں میں پیدا ہوئے نہ کہ بھارت میں۔ اصل اجودھیا تھوری میں ہے جو کہ نیپال کے بیر گنج ضلع کے مغرب میں واقع ہے لیکن بھارت دعوی کرتا ہے رام ان کے یہاں پیدا ہوئے تھے، جب کہ حقیقت میں اجودھیا، بیر گنج کے مغرب میں واقع ایک گاوں ہے۔“ 

بھارتی وزارت خارجہ سے اس معاملے پر تبصرہ کے لیے متعدد درخواستوں کے باوجود ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

نیپالی وزیر اعظم نے بھارت پر ثقافتی حملہ کرنے اور ’ فرضی اجودھیا تخلیق‘ کرنے کابھی الزام لگایا۔ اولی کا کہنا تھا”بھارت کے مسلسل دعوے کی وجہ سے ہم بھی یہ یقین کرنے لگے ہیں کہ سیتا نے بھارت کے شہزادے رام سے شادی کی تھی۔ جب کہ ایسا نہیں ہے۔ وہ نیپالی تھے۔ بالمیکی آشرم نیپال میں ہے اور راجہ دشرتھ نے بیٹے کے لیے جہا ں یگیہ (مذہبی تقریب) کیا تھا وہ نیپال کے ریدی میں ہے۔ دشرتھ کے بیٹے رام بھارتی نہیں تھے اور اجودھیا نیپال میں ہے۔“

BdTD Bild des Tages deutsch | Nepal | Sadhu
کٹھمنڈو کا پشوپتی ناتھ مندرتصویر: AFP/Getty Images/P. Mathema

نیپالی وزیر اعظم نے بھگوان رام کی شہریت پر مزید سوالات اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ بھگوان رام سیتا سے شادی کرنے کے لیے جنک پور کیسے آئے؟ جبکہ اس زمانے میں نقل و حمل کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ ’یہ ناممکن ہے کہ بھگوان رام بھارت کے اجودھیا سے شادی کرنے کے لیے نیپال کے جنک پور آتے۔ اس وقت نہ تو ٹیلی فون تھا اور نہ ہی موبائل پھر انہیں جنک پور کے بارے میں کیسے علم ہوگیا۔“

 بھارت میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے نیپالی وزیر اعظم کے اس بیان پر سخت مذمت کی ہے۔ بی جے پی کے قومی ترجمان بجئے سونکر شاستر ی نے کہا کہ بائیں بازو کی جماعتیں بھارت میں بھی لوگوں کے عقیدے سے کھیلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ نیپال کے کمیونسٹ بھی یہی کررہے ہیں۔ لیکن جس طرح بھارت میں عوام نے کمیونسٹوں کو مسترد کردیا ہے نیپال میں بھی ان کا یہی حشر ہوگا۔ شاستری کا کہنا تھا”بھگوان رام ہمارے لیے عقیدہ کا معاملہ ہے اورعوام کسی کو بھی، خواہ وہ نیپال کا وزیر اعظم ہو یا کوئی اور، اس سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔“

اترپردیش کے نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ کا کہنا تھا کہ اولی کا یہ غیر مہذب بیان’ان کے ذہنی دیوالیہ پن کو ظاہر کرتا ہے۔‘  ہندو شدت پسند جماعت بھارتیہ ہندو پریشد کے صدر وشنو سداشیو کوکجے کا کہنا تھا”ہم نے ایسی بات آج تک نہ پڑھی ہے نہ سنی ہے۔ کمیونسٹ رہنما نے جو کچھ کہا ہے وہ جھوٹ ہے اور سیاسی اغراض پر مبنی ہے۔“  اپوزیشن کانگریس کے رہنما ابھیشیک منوسنگھوی نے کہا کہ ’نیپالی وزیر اعظم اولی غالباً اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے ہیں۔“

 ہندووں کا دعوی ہے کہ بھگوان رام بھارتی صوبے اترپردیش کے اجودھیا میں بابری مسجد میں ٹھیک اسی جگہ پیدا ہوئے تھے جہاں مسجد کا محراب ہے۔ تاریخی بابری مسجد کے انہدام کے بعد اب وہاں ایک عظیم الشان مندر کی تعمیر کا آغاز ہوچکا ہے۔ حالانکہ اس دوران بودھ مت کے ماننے والوں نے عدالت عظمی میں ایک درخواست دے کر دعوی کیا ہے کہ بابری مسجد کی کھدائی سے جو آثار ملے ہیں وہ واضح طور پر کسی بودھ خانقاہ کی نشاندہی کرتے ہیں لہذا اس جگہ کو بودھوں کو سونپا جائے۔

Indien Tempel Urteil Babri Moschee
بابری مسجد، جسے شدت پسند ہندووں نے 6 دسمبر 1992 کو منہدم کردیا۔ بعض ہندووں کا عقیدہ ہے کہ بھگوان رام اسی مسجد کے محراب کی جگہ پیدا ہوئے تھے-تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Walton

خیال رہے کہ بھارت اور نیپال کے درمیان پچھلے چند ماہ سے تعلقات مسلسل کشیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ نیپال نے ان علاقوں کو، جن پر بھارت اپنا دعوی کرتا ہے، شامل کرتے ہوئے اپنا سیاسی نقشہ جاری کردیا تھا۔ اس کے بعد اس نے شہریت قانون میں ترمیم کی۔ جس کی رو سے بھارتی خواتین کو نیپالی مردوں کے ساتھ شادی کے بعد شہریت کے لیے اب سات برس انتظار کرنا ہوگا۔

 نیپالی حکومت نے کچھ دنوں پہلے اس بھارتی ڈیم کی مرمت کا کام بند کروادیا جس کے ذریعہ نیپال سے بھارت کے ریاست بہار میں پانی آتا ہے اور سیلاب کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔  یہی نہیں پچھلے دنوں اولی حکومت نے بھارت کے سرکاری نیوز چینل دوردرشن کو چھوڑ کر تمام نیوز چینلوں کے اپنے یہاں نشریے پر پابندی عائد کردی۔ نیپال نے الزام لگایا تھا کہ بھارتی نیوز چینل نیپال اور نیپالی حکومت کے بارے میں فرضی اور جھوٹی خبریں نشر کررہے ہیں۔ اولی حکومت نے اس سلسلے میں کٹھمنڈو میں بھارتی سفیر کو طلب کرکے احتجاج بھی درج کرایا تھا۔

باہمی تنازعے کی اس مسلسل کڑی میں اب بھگوان رام کا نیا تنازعہ بھی شامل ہوگیا ہے۔ بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اولی ان معاملات کو اس لیے اٹھارہے ہیں کیوں کہ ان کی سیاسی پوزیشن کمزور ہورہی ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے بھی ہورہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے طنزا لکھا کہ نیپالی وزیر اعظم اولی نے اپنی مقبولیت اور اقتدار میں برقرار رہنے کا ہنربھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے سیکھ لیا ہے!

سیکس کے لیے بھارت سمگل کی جانے والی نیپالی لڑکیاں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں