1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیجنگ کی عسکری منصوبہ بندی ، خطے اور بڑی طاقتوں کی تشویش

9 مارچ 2023

جاپان اور جنوبی کوریا سے لے کر فلپائن تک بہت سے ممالک بیجنگ کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت اور خطے میں اثر و رسوخ سے خائف ہیں۔

https://p.dw.com/p/4OSf0
Peking Parade 70 Jahre Volksrepublik China
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong

اتوار کو چین کی 'ربر اسٹیمپ پارلیمنٹ‘  کے افتتاح کے موقع پر، سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم لی کی چیانگ نے ملک کے فوجی اخراجات میں اضافے کا اعلان کیا انہوں نے یہ اضافہ بیرون ملک سے '' بڑھتے سکیورٹی خطرات‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا۔

بیجنگ اب اس سال کے لیے اپنی فوج پر تقریباً 1.55 ٹریلین یوآن 225 بلین ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ اب تک کے دفاعی بجٹ میں  7.2 فیصد کا اضافہ ہے اور 2019ء  کے بعد سے اب تک سب سے تیز رفتار اضافہ قرار دیا جا رہا ہے۔

 لی کی چیانگ نے کہا ہے کہ فوج کو ''جنگی حالات میں تربیت کے لیے زیادہ سے زیادہ توانائی صرف کرنی چاہیے اور تمام سمتوں اور ڈومینز میں فوجی کام کو مضبوط بنانا چاہیے۔‘‘

چین  کے دفاعی اخراجات امریکہ کے مقابلے میں اب بھی کم ہیں۔ امریکہ  نے اس سال اپنی فوج کے لیے 800 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ مختص کیے ہیں لیکن مغربی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بیجنگ سرکاری طور پر اعلان کردہ رقوم سے کہیں زیادہ دفاع پر خرچ کرتا ہے۔

China Militärfahrzeuge in Shenzhen an der Grenze zu Hongkong
ہانگ کانگ سے متصل چینی سرحدی علاقے میں تعینات چینی فوج کی گاڑیاںتصویر: Getty Images/AFP

خطرے کا بڑھتا ہوا احساس

چین  میں دفاعی اخراجات میں اضافے کا اعلان ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب  ''انڈوپیسیفک خطے‘‘ میں جغرافیائی سیاسی ماحول میں واضح تناؤ نظر آ رہا ہے۔ جاپان اور جنوبی کوریا سے لے کر فلپائن تک بہت سے ممالک بیجنگ کی بڑھتی ہوئی جارحیت اور خطے میں اثر و رسوخ سے  تشویش میں مبتلا نظر آ رہے ہیں۔

علاقائی سلامتی کے منظرنامے پر بڑھتے ہوئے خطرے کے بارے میں ان کے تصورات نے انہیں اپنی دفاعی تیاریوں اور فوجی اخراجات میں اضافے پر توجہ مرکوز کرنے  کی ترغیب دلائی ہے۔ مثال کے طور پر جاپان نے آنے والے سال کے لیے 6.82 ٹریلین ین یا 51.7 بلین ڈالر کے ریکارڈ فوجی اخراجات کا اعلان کیا، جو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 26 فیصد زیادہ ہے۔

جاپانی وزیر اعظم فیومیو کشیدا کی حکومت نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک ملک کی سب سے بڑی فوجی تشکیل کا اعلان بھی کیا۔ ٹوکیو حکومت کا یہ اقدام  اس کی گزشتہ سات دہائیوں کی امن پسندی سے عبارت پالیسی میں  ڈرامائی تبدیلی کی نشاندہی ہے۔ 

چین اور بیلاروس کا یوکرین میں 'جلد از جلد' امن کا مطالبہ

امریکہ اور چین کے مابین تعلقات میں توازن

جنوبی کوریا بھی چین کی فوجی طاقت سے پریشان ہے، لیکن سیئول کے لیے  سب سے بڑا دباؤ اور اس کی سکیورٹی کو لاحق چیلنج شمالی  کوریا ہے۔

China weibliche Blauhelmsoldatinnen
چینی خواتین فوجیوں کی یو این پیس کییپنگ فورس میں شمولیتتصویر: picture-alliance/dpa/C. Boyuan

پیونگ یانگ نے حالیہ مہینوں میں ڈرامائی طور پر اپنی جارحانہ پیش رفت کا مظاہرہ کیا اور ریکارڈ تعداد میں میزائل تجربات کیے ہیں۔  ٹوکیو یونیورسٹی کے 'ریسرچ سینٹر فار ایڈوانسڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘ کے پروجیکٹ اسسٹنٹ پروفیسر ریو ہیناتا یاماگوچی کے بقول،''جنوبی کوریا کو جزیرہ نما کوریا کی صورتحال کی وجہ سے چین  کی طرف سے لاحق خطرے کے بارے میں زیادہ حساس ہونا پڑے گا، جہاں چین کسی ہنگامی حالت کی صورت میں شمالی کوریا کی  طرف سے مداخلت کر سکتا ہے، لیکن سیئول ابھی 'بڑی طاقتوں بیجنگ اور واشنگٹن‘ کے مابین مسابقت کی دوڑ میں شامل ہونے سے گریزاں ہے۔‘‘

تائیوان میں بے چینی

بیجنگ کی بڑھتی ہوئی فوجی صلاحیتیں تائیوان میں بھی پریشانی کا باعث بنی ہیں، جسے چین اپنا علاقہ قرار ہے اور اس نے ا تائیوان کو اپنے انتظام میں لانے کا عزم کر رکھا ہے۔ اعلیٰامریکی  حکام نے بارہا خبردار کیا ہے کہ چین آنے والے برسوں میں اس جمہوری خود مختار جزیرے پر حملہ کر سکتا ہے، جو کہ آبنائے تائیوان میں بیجنگ کے بڑھتے ہوئے جارحانہ فوجی اقدامات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

China | gemeinsame Militärübung mit Russland
چین اور روس کے فوجیوں کی مشترکہ مشقیںتصویر: Ding Kai/Xinhua/picture alliance

تجزیہ کار Tzu-Yun Su کے مطابق، چین کے 2023ء کے فوجی اخراجاتتائیوان  کے مقابلے میں 11 گنا زیادہ ہیں، جس سے علاقے کی مالیاتی یا اقتصادی صورتحال پر بھی بہت زیادہ دباؤ پڑرہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا،''چونکہ چین کے پاس پانچ جنگی زون ہیں، اس لیے اس کے دفاعی وسائل کو مزید پھیلایا جائے گا۔‘‘

 

تجزیہ کار Tzu-Yun Su کا مزید کہنا تھا،''اگر تائیوان جہاز شکن میزائلوں اور فضائی دفاعی میزائلوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتا ہے، تو اس کے پاس اپنے گولا بارود اور فوجی عملے کے شعبے میں چین کے عددی برتری کو ختم کرنے کا بہت زیادہ موقع ملے گا۔‘‘

ک م/ ع ت( ولیم یانگ)