بینک اکاؤٹنس تنازعہ، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ بالآخر متفق
17 اگست 2011دونوں ہمسایہ ملکوں کے مابین اب اس بارے میں اتفاق رائے ہو گیا ہے کہ اُن جرمن شہریوں کی اربوں کی رقوم پر ٹیکس کس طرح وصول کیا جائے گا، جنہوں نے ٹیکسوں کی ادائیگی سے بچنے کے لیے سالہا سال سے اپنا سرمایہ سوئس بینکوں میں جمع کرا رکھا ہے۔
اس معاہدے کو جرمنی اور سوئٹزر لینڈ دونوں ہی اپنی اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ ایسا ہے بھی۔ اس لیے کہ سوئس بینکوں میں جمع کردہ جرمن شہریوں کی بے تحاشا رقوم پر کوئی ٹیکس ادا نہ کیے جانے کی وجہ سے سوئٹزر لینڈ کی ساکھ متاثر ہو رہی تھی اور جرمنی کو مالی نقصان ہو رہا تھا۔ اس بارے میں سوئس وزیر خزانہ اَیویلینے وِدمر شلُمپف کا کہنا ہے،’اس معاہدے کے ذریعے قانونی ضمانت ممکن بنا دی گئی ہے۔ ہم نے ایک مالیاتی مرکز کے طور پر اپنی مقابلے کی اہلیت بہتر بنائی ہےاور ساتھ ہی یہ بات بھی اہم ہے کہ اب ایک مالیاتی مرکز کے طور پر سوئٹزر لینڈ کی ساکھ بھی مزید بہتر ہو جائے گی۔‘
سوئٹزر لینڈ کی خواہش ہے کہ اسے کالے دھن سے فائدہ اٹھانے والا ملک نہ سمجھا جائے بلکہ اب سوئس بینکنگ انڈسٹری میں جو ایک بات بار بار سننے میں آ رہی ہے، وہ ’وائٹ منی اسٹریٹیجی‘ کی اصطلاح ہے۔
سوئس حکومت کے لیے اس معاہدے میں یہ بات بہت اہم تھی کہ سوئس بینکوں کے جرمن کھاتہ داروں کے نام آئندہ بھی صیغہء راز میں رہنے چاہیئں۔ اسی لیے جرمنی کے ساتھ معاہدے میں اکاؤنٹ ہولڈرز کے بارے میں معلومات کے خود کار تبادلے کی وہ شق شامل نہیں ہے، جو مثال کے طور پر سوئٹزر لینڈ کے امریکہ کے ساتھ اسی شعبے میں طے پانے والے سمجھوتے کا لازمی حصہ تھی۔
اس بارے میں سوئس بینکوں کی ملکی تنظیم کے صدر پَیٹرِک اوڈِیئر کہتے ہیں،’یہ معاہدہ دونوں فریقین کے فائدے میں ہے۔ اکاؤنٹ ہولڈرز کے بارے میں نجی معلومات آئندہ بھی خفیہ رہیں گی۔ اس لیے کہ بینکاری میں راز داری کی روایت پر آئندہ بھی عمل کیا جائے گا۔‘
اس سوئس جرمن معاہدے پر عملدرآمد کا آغاز سن 2013 کے اوائل سے ہو گا۔ معاہدے کے تحت جرمنی میں وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی مالیاتی امور کی وزارتوں اور دیگر سرکاری محکموں کے اہلکاروں کو منع کر دیا گیا ہے کہ وہ جرمن ٹیکس چوروں کا پتہ لگانے کے لیے، ان کے بارے میں ذاتی معلومات پر مشتمل سوئٹزر لینڈ میں کسی کی طرف سے بھی فروخت کے لیے پیش کردہ کوئی مسروقہ ڈیٹا نہیں خریدیں گے۔
یہ معاہدہ طے پا جانے کے بعد سوئس بینکوں میں اپنی رقوم رکھنے اور جرمنی میں ان رقوم پر کوئی ٹیکس ادا نہ کرنے والے شہریوں کے پاس ابھی کافی وقت ہے کہ وہ اگر چاہیں، تو اپنا یہ سرمایہ سوئٹزر لینڈ سے باہر بھی منتقل کر سکتے ہیں۔ ماہرین کے بقول مثال کے طور پر یہ رقوم ہانگ کانگ کے بینکوں میں بھی منتقل کی جا سکتی ہیں۔
اس سلسلے میں سوئس بینکنگ انڈسٹری کے لیے ایسی رقوم کی ملک سے باہر منتقلی کو روکنا ممکن نہیں ہو گا۔ تاہم ساتھ ہی سوئس بینکوں نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ کسی بھی جرمن اکاؤنٹ ہولڈر کی طرف سے کالے دھن کو وہاں سے کسی دوسرے ملک منتقل کرنے کے عمل کی حوصلہ افزائی بالکل نہیں کی جائے گی۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عاطف توقیر