بیگمات کی جنگ: بنگلہ دیش سنگین بحران سے دوچار
4 جنوری 2014آج ہفتے کے روز حکومتی جماعت عوامی لیگ کے حامیوں اور اپوزیشن پارٹی BNP کے کارکنوں کے مابین تصادم میں دو افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے جبکہ حکومت مخالفین کی طرف سے جمعے سے جاری تخریبی کارروائیوں کے نتیجے میں 50 کے قریب اسکولوں کو نذر آتش کیا جا چُکا ہے۔ ان اسکولوں اور دیگر مراکز کو بطور پولنگ اسٹیشن استعمال کیا جانا تھا۔
اُدھر بنگلہ دیش کے شمالی علاقے دیناج پور کی پولیس کے مطابق جمعے کی صبح مشتعل مظاہرین نے ایک ٹرک پر پٹرول بم پھینکے، جس کے نتیجے میں دو افراد جل کر ہلاک ہو گئے جبکہ خالدہ ضیاء کے آبائی جنوب مشرقی شہر فنی میں پانچ پولنگ اسٹیشنز کو نذر آتش کر دیا گیا۔
تشدد میں اضافہ اُس وقت دیکھنے میں آیا، جب اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی BNP نے ہفتے کی شام سے 48 گھنٹے دورانیے کی عام ہڑتال کا اعلان کیا۔ اس جماعت کی قائد خالدہ ضیاء کو حکومت نے ان کے گھر پر نظربند کر رکھا ہے جبکہ بنگلہ دیش کی حکومت خالدہ ضیاء کی نظر بندی کی خبر کو مسترد کر رہی ہے لیکن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ اُن کی لیڈر کو قریب ایک ہفتے سے ڈھاکہ میں واقع ان کے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
موجودہ صورتحال میں اپوزیشن نے انتخابات کی قانونی حیثیت کو کمزور بنا دیا ہے اور اس بات کے امکانات کم نظر آ رہے ہیں کہ گزشتہ برس قریب 275 افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے ملکی سیاسی بحران پر قابو پاتے ہوئے اتوار کے عام انتخابات کا انعقاد ہو سکے گا۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور دیگر 21 سیاسی جماعتوں نے اُس وقت ان انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا، جب وزیرِ اعظم حسینہ واجد نے ان کا یہ مطالبہ رد کیا کہ انتخابات ایک غیرجانبدار نگران حکومت کے تحت کروائے جائیں۔
گزشتہ چند ہفتوں سے دارالحکومت ڈھاکہ ملک کے دیگر شہروں سے کٹ کر رہ گیا ہے۔ اپوزیشن کارکن اپنے مطالبات منوانے کے لیے عام ہڑتال اور پبلک ٹرانسپورٹ کو بلاک کرنے جیسی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ ہڑتال میں حصہ لینے سے انکار کرنے والے شہریوں کی گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا جاتا ہے۔
ایک شہری، ہاجرہ بیگم نے سرکاری ٹیلی وژن کو بیان دیتے ہوئے کہا، "میں ووٹ ڈالنا چاہتی ہوں، تاہم مجھے ہنگاموں سے خوف آتا ہے، اگر صورتحال نارمل رہی اور میرے ہمسائے بھی ووٹ ڈالنے گئے تو میں بھی ہمت کروں گی"۔
دیرینہ سیاسی دشمنیاں اور انتقامی جذبات اس ملک میں اس حد تک بھڑکے ہوئے ہیں کہ مبصرین کا کہنا ہے کہ 160 ملین کی آبادی والی جنوبی ایشیا کی اس غریب ریاست کو مزید اقتصادی نقصانات کا سامنا ہو گا، جس کے نتیجے میں ماہرین کے مطابق اس ملک میں انتہا پسندی میں بھی مزید اضافہ ہو گا۔
ایک ایسی صورتِ حال میں کہ جب وزیر اعظم شیخ حسینہ اپوزیشن کی جانب سے اپنے استعفے اور انتخابات کی نگرانی کے لیے ایک غیر جانبدار عبوری انتظامیہ کی تشکیل کے مطالبات مسترد کر چکی ہیں، الیکشن کے انعقاد کا مطلب یہ ہو گا کہ اس میں محض حکمران جماعت عوامی لیگ اور اُس کے حامی عناصر ہی حصہ لے سکیں گے۔ 300 میں سے آدھی سے زائد نشستوں پر عوامی لیگ کے امیدواروں کے مقابلے میں کوئی امیدوار انتخاب ہی نہیں لڑ رہا۔
بنگلہ دیش کی تاریخ سیاسی بحرانوں سے عبارت رہی ہے۔ اس ملک میں دو صدور کا قتل ہو چُکا ہے اور 1971ء میں پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے اب تک بنگلہ دیش میں فوجی بغاوت کی 19 کوششیں ناکام ہو چُکی ہیں۔
دریں اثناء یورپی یونین، امریکا اور دولتِ مشترکہ کی طرف سے کہہ دیا گیا ہے کہ اتوار کے عام انتخابات میں ان تینوں کا کوئی مبصر نہیں بھیجا جائے گا۔
حسینہ واجد اور خالدہ ضیاء کو " بیٹلنگ بیگمز" یا جھگڑتی بیگمات کہا جانے لگا ہے۔ ان کے مابین پائی جانی والی سیاسی دشمنی اور طاقت کے حصول کی رسہ کشی کی تاریخ پرانی ہے۔ مسلم دنیا میں گرچہ بیگم کا لقب چیدہ چیدہ خواتین کو احترام کے طور پر دیا جاتا ہے تاہم اقتدار کی جنگ میں مصروف یہ دونوں خواتین اب بنگلہ دیش کے سیاسی اور اقتصادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب بن رہی ہیں۔ ملک پر حکومت کرنے کی جان توڑ کوشش ان دونوں خواتین کی رقابت میں غیر معمولی اضافے کا سبب بن چُکی ہے۔ ایک عرصے سے ان کے مابین چلی آ رہی سیاسی کشیدگی گزشتہ اکتوبر میں کھُل کر اُس وقت سامنے آئی، جب کئی سالوں کے بعد دونوں نے بذریعہ ٹیلی فون ایک دوسرے سے گفتگو کی جو نہایت تلخ اور تند و تیز لہجے میں ہوئی۔ اس گفتگو کی تفصیلات انگریزی اخبار ’دی ڈھاکہ ٹریبون‘ میں شائع ہوئی تھیں۔