تائیوان کے لیے جنگ شروع کرنے سے بھی نہیں ہچکچائیں گے، چین
11 جون 2022امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے گیارہ مئی ہفتے کے روز ایک بار پھر سے جزیرہ تائیوان کے آس پاس چینی "اشتعال انگیزی اور غیر مستحکم کرنے والی عسکری سرگرمیوں" پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ امریکہ ایشیا بحرالکاہل خطے میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ کھڑا رہے گا۔
امریکی وزیر دفاع کا یہ بیان اپنے چینی ہم منصب سے اس ملاقات کے بعد آیا ہے، جس میں چین نے امریکہ کو خبردار کیا تھا کہ بیجنگ جزیرے تائیوان کی آزادی کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا اور اس کے لیے وہ، "جنگ شروع کرنے کے لیے بھی تیار ہے چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔"
خود مختار جزیرہ تائیوان کے حوالے سے واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ چین تائیوان کو اپنا علاقہ سمجھتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اگر ضرورت پڑی، تو طاقت کے زور پر بھی اسے ملک میں ضم کیا جا سکتا ہے۔
حالیہ دنوں میں بیجنگ نے جزیرہ تائیوان کے آس پاس اپنے جنگی طیاروں کی پروازوں میں اضافہ کیا ہے۔ ادھر امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی گزشتہ ماہ کئی دہائیوں پر محیط امریکی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر چین نے حملہ کیا تو واشنگٹن عسکری سطح پر تائیوان کا دفاع کرے گا۔
لائیڈ آسٹن نے کیا کہا؟
جمعے کے روز سنگاپور میں چینی وزیر دفاع وائی فینگی کی اپنے امریکی ہم منصب لائیڈ آسٹن کے ساتھ پہلی بار ملاقات ہوئی اور آمنے سامنے کی اس بات چیت کے ایک دن بعد، آسٹن نے تائیوان کے حوالے سے بیجنگ کے رویے پر سخت تنقید کی۔
سکیورٹی سے متعلق سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ سے اپنے خطاب میں انہوں نے کہا، "ہم نے تائیوان کے قریب اشتعال انگیز اور غیر مستحکم کرنے والی فوجی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ دیکھا ہے۔ اس میں حالیہ مہینوں میں ریکارڈ تعداد میں تائیوان کے قریب پرواز کرنے والے (چینی فوجی) طیارے شامل ہیں اور یہ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔"
آسٹن نے مزید کہا، "ہم واضح طور پر موجودہ صورت میں یک طرفہ تبدیلیوں کے مخالف ہیں۔ ہماری پالیسی میں کوئی تبدیل نہیں آئی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے (چین کے بارے میں) ایسا درست نہیں لگتا ہے۔"
تقریبا ایک گھنٹے کے اپنے خطاب کے دوران امریکی وزیر دفاع آسٹن نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ "اصول و قانون پر مبنی بین الاقوامی نظام" کا پابند ہے اور خطے میں امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے وہ شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ تاہم ریپبلک آف چین کے، "اقدامات سے امن اور استحکام کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ یہ صرف امریکہ کا ہی مفاد نہیں ہے، بلکہ یہ تو بین الاقوامی سطح پر ایک تشویش کا معاملہ ہے۔"
اس موقع پر آسٹن نے مشرقی بحیرہ چین اور جنوبی بحیرہ چین میں بیجنگ کے بڑھتے ہوئے جارحانہ انداز کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان علاقوں میں بیجنگ اپنے سمندری دعوؤں کو آگے بڑھانے کے عزم میں زیادہ "سخت اور جارحانہ" ہوتا جا رہا ہے۔
امریکی وزیر دفاع نے زور دیا کہ امریکہ بھی پورے ایشیا پیسفک خطے میں اپنی "فعال موجودگی" برقرار رکھے گا۔ ان کا کہنا تھا، "جہاں بھی بین الاقوامی قانون اجازت دیتا ہے ہم وہاں پرواز کریں گے، بحری جہاز چلائیں گے اور ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایسا کریں گے۔"
چینی وزیر دفاع کا سخت موقف
اس سے قبل امریکی وزیر دفاع سے ملاقات کے بعد چینی وزیر دفاع کے حوالے سے جو بیانات سامنے آئے اس میں کہا گیا تھا کہ بیجنگ تائیوان کے مسئلے پر کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں اور اگر ضرورت پڑی تو وہ اس کے لیے جنگ کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔
چینی محکمہ دفاع کے ایک سینیئر عہدے دار او قیان نے وزیر دفاع وائی فینگی کے حوالے سے کہا، "اگر کوئی تائیوان کو چین سے الگ کرنے کی جرات کرتا ہے، تو چینی فوج یقینی طور پر جنگ شروع کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گی، چاہے اس کی کوئی بھی قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔"
بیان کے مطابق چینی وزیر دفاع نے اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات کے دوران اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ بیجنگ، "تائیوان کی آزادی کی کسی بھی سازش کو ناکام بنا دے گا اور مادر وطن کی سالمیت اور اتحاد کو مضبوطی سے برقرار رکھے گا۔"
بیان میں کہا گیا کہ وزیر دفاع نے، "اس بات پر زور دیا ہے کہ تائیوان چین کا ہی تائیوان ہے۔۔۔۔۔ اور چین پر قابو پانے کے لیے تائیوان کو استعمال کرنے کی حکمت عملی کبھی کامیاب نہیں ہو گی۔"
اطلاعات کے مطابق اس ملاقات کے دوران امریکی وزیر دفاع نے اپنے چینی ہم منصب سے کہا کہ بیجنگ کو، "تائیوان کے خلاف مزید عدم استحکام پیدا کرنے والے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے۔"
ص ز/ ع ب (اے ایف پی، اے پی)