’تارکین وطن کا معاملہ‘ ، ہنگری نے فیصلہ واپس لے لیا
24 جون 2015ہنگری کے وزیر خارجہ پیٹر سی یاٹو نے اپنے آسٹرین ہم منصب کو بدھ کے روز بتایا کہ ڈبلن معاہدے کی کوئی شق اب معطل نہیں کی جا رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بوڈاپیسٹ حکومت نے رکن ریاستوں سے صرف کچھ وقت مانگا تھا تاکہ مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث پیدا ہونے والی مشکلات پر قابو پایا جا سکے۔ گزشتہ روز ہنگری نے پناہ کے متلاشی افراد کے لیے بنائے گئے یورپی یونین کے ایک قانون پر عملدرآمد غیر معینہ مدت کے لیے روکنے کا اعلان کیا تھا۔ بوڈا پیسٹ کے مطابق ’ہنگری کے مفادات کے تحفظ‘ کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا تھا۔
ڈبلن IIl ریگولیشن نامی یورپی یونین کے اس قانون کے تحت تارکین وطن کے دعوے کی جانچ پڑتال اُسی یورپی ملک میں کی جائے گی، جہاں وہ پناہ لینے کی غرض سے پہلی مرتبہ داخل ہوئے۔ ہنگری کے ایک حکومتی ترجمان زولٹان کوواکس نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ’کشتی بھر چکی ہے‘ اور اس قانون پر عملدرآمد روک دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا، ’’ہم (تارکین وطن کے بحران کے حل کے لیے) یورپی منصوبہ جات کی کامیابی چاہتے ہیں۔ لیکن ہم نے ہنگری کے مفادات اور آبادی کا تحفظ بھی یقینی بنانا ہے۔‘‘
اس پیشرفت کے فوری بعد ہی برسلز نے بوڈاپیسٹ سے وضاحب طلب کر لی تھی۔ یورپی یونین کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق بوڈا پیسٹ سے کہا گیا کہ وہ فوری طور پر اس قانون پر عملدرآمد کو معطل کرنے کے بارے میں تفصیلی جواب دے، ’’ہنگری نے ممبر ریاستوں کو مطلع کیا تھا کہ یہ غیر معینہ مدت کے لیے اس تعطلی کی تکنیکی وجوہات ہیں۔‘‘ اس بیان کے مطابق ہنگری سے کہا گیا کہ وہ اِن ’تکنیکی وجوہات‘ کی وضاحت کرے۔
یہ امر اہم ہے کہ سویڈن کے علاوہ ہنگری یورپی یونین کی ایسی رکن ریاست ہے، جو اپنی فی کس آمدنی کے تناسب سے سب سے زیادہ پناہ کے متلاشی افراد کو قبول کر چکا ہے۔ سن 2014ء کے دوران ہنگری میں تقریبا 43 ہزار تارکین وطن کو آباد کیا گیا تھا جبکہ 2012ء میں ایسے افراد کی تعداد صرف دو ہزار تھی۔ بوڈا پیسٹ حکومت کے اعداد وشمار کے مطابق رواں برس ہنگری میں ساٹھ ہزار تارکین وطن داخل ہوئے، جن میں زیادہ تر سربیا سے ہنگری آئے۔
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک بیان سے ایک نئے تنازعے کو جنم دے دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ ہمسایہ ملک سربیا سے ملحقہ علاقوں میں تیرہ فٹ اونچی ایک باڑ تعمیر کریں گے تاکہ تارکین وطن کو ہنگری داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
ہنگری پورپ کے پاسپورٹ فری شینگن زون کا رکن ہے، جس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی ایک مرتبہ ہنگری میں داخل ہو گیا تو وہ ان پچیس ممالک کا رخ بھی کر سکتا ہے، جو شینگن زون کا حصہ ہیں۔ ہنگری پہنچنے والے تارکین وطن بعدازاں دیگر ممالک کا رخ کرتے ہیں، جن میں جرمنی اور آسٹریا نمایاں ہیں۔ ڈبلن قواعد کے مطابق البتہ یہ ممالک کسی بھی تارک الوطن کو اس کے دعوؤں کی تصدیق اور جانچ پڑتال کے لیے واپس اسی ملک روانہ کر سکتے ہیں، جہاں وہ پہلی مرتبہ داخل ہوا تھا۔