تارکین وطن کے انضمام کے لئے: قومی ایکشن پلان
3 نومبر 2010اس کانفرنس میں غیر ملکیوں کی تعلیم، روز گار کی منڈی کی صورتحال اور انضمام کے موضوع کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ اس موقع پر جرمنی کی غیرملکیوں کے انضمام کے امور کی نگران اور حکمران جماعت کرسچن ڈیمو کریٹک پارٹی سی ڈی یو کی سیاست دان ماریا بیہومر نے کہا کہ اس یورپی معاشرے میں تارکین وطن کی صلاحیتوں کو نکھارنے کی ممکنہ کوششوں کے ساتھ ساتھ جرمن معاشرے کو متحد رکھنے کے لئے بھی ضروری اقدامات کئے جانے چاہئیں۔
اس بار کی اس کانفرنس کا ایک اہم مقصد کچھ عرصے سے جرمن معاشرے میں نزع کا باعث بنے ہوئے تارکین وطن کے امور سے متعلق اُن موضوعات پر کُھل کر بحث کرنا تھا جو خود جرمن چانسلر کے لئے مشکلات کا باعث بنتے جا رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جرمن چانسلر نے اپنے ایک اہم خطاب میں کہا تھا کہ جرمنی میں کثیرالثقافتی معاشرے کے قیام کی کوششیں پوری طرح ناکام ہو چُکی ہیں۔ اس پر جرمنی میں آبادی مسلم برادری کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آیا تھا۔ میرکل کے اس غیر معمولی بیان کو جرمنی کے مرکزی بینک کے سابق بورڈ ممبر اور جرمنی کی سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی ایس پی ڈی کے ایک سابقہ سیاستدان تھیلو زاراسین کے اُن متنازعہ بیانات کے تناظر میں دیکھا گیا جس میں انہوں نے مسلمان تار کین وطن کو جرمنی کے لئے اقتصادی اورمعاشرتی بوجھ قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ مسلمان تارکین وطن جرمن معاشرے میں ضم ہونے کی کوشش نہیں کرتے اور حکومتی مراعات کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ زاراسین کے ان خیالات پر مشتمل اُن کی ایک کتاب بھی شائع ہوئی جو ’بیسٹ سیلر‘ بھی رہی۔ تاہم ان کے متنازعہ بیانات پر مختلف حلقوں کی طرف سے ہونے والے شور کے بعد زاراسین جرمنی کے مرکزی بینک سے مستعفی ہونے پر مجبور ہو گئے۔ لیکن تاریکن وطن کے انضمام کا موضوع بدستور زباں زد عام ہے۔
جرمنی کے اعداد و شمار کے وفاقی دفتر کے اندازوں کے مطابق اس یورپی ملک میں آباد 16 ملین افراد تارکین وطن پس منظر کے حامل ہیں جو کہ ملک کی کُل آبادی کا 20 فیصد ہیں۔ ان میں ساڑھے تین ملین سے زیادہ تعداد مسلمان تارکین وطن کی ہے جن میں اکثریت ترک نژاد باشندوں کی ہے۔
بُدھ کے روز چانسلر دفتر میں ہونے والے تارکین وطن کے انضمام کے اجلاس کے دوران وفاقی حکومت کی طرف سے متعارف کروائے گئے ’انٹیگریشن کورس‘ پر بہت زیادہ زور دیتے ہوئے تارکین وطن سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسے نظر انداز نہ کریں۔ اس کے علاوہ جبری شادی کو قابل سزا جرم قرار دینے کے موضوع پر بھی بحث کی گئی۔
جرمن چانسلر میرکل نے ایک قومی ایکشن پلان کو اگلے 12 ماہ کے دوران نافذ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس منصوبے میں تارکین وطن کی تعلیم، تربیت، روز گار اور اُن کی جرمن زبان سیکھنے کی صلاحیتوں میں اضافے کی کوششوں کے حوالے سے ٹھوس اقدامات شامل ہیں۔
اس اجلاس میں متعدد جرمن صوبوں کے وزراء کے علاوہ وفاقی وزراء نے بھی شرکت کی۔ ان کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے سمیت، میڈیا، محکمہ پولیس، اسپورٹس کے اداروں اور تارکین وطن برادریوں کی مختلف تنظیموں کے نمائندے بھی اس اجلاس میں شامل تھے۔
تین گھنٹوں تک جاری رہنے والی اس کانفرنس کے آغاز سے پہلے ہی جرمنی کی غیر ملکیوں کے انضمام کے امور کی نگران ماریا بیہومر نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ تارکین وطن گھرانوں کے بہت سے بچے اب بھی نہ تو معیاری جرمن زبان سیکھ رہے ہیں نہ ہی یہ اپنی اسکول کی تعلیم مکمل کرتے ہیں۔
جرمنی میں معمر شہریوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورتحال میں اس معاشرے کو تربیت یافتہ ورکرز کی قلت کا سامنا ہے اور اس سلسلے میں جرمنی غیر ملکی کارکنوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: عابد حسین