تارکینِ وطن کا جرمنی میں فٹ بال کے ذریعے انضمام
15 نومبر 2016جرمن فٹ بال ایسوسی ایشن ’ ڈی بی ایف ‘ کے مطابق بیالیس ہزار غیر ملکیوں نے جن میں سے بیشتر پناہ گزین ہیں، گزشتہ ایک برس میں فٹ بال کھیلنے کے لیے لائسنس کی درخواست کی ہے۔
جرمنی میں چھبیس ہزار سے زائد فٹ بال کلب موجود ہیں جہاں چھ اعشاریہ پانچ ملین کھلاڑی رجسٹرڈ ہیں۔ فٹ بال کے میدان میں نئے مہاجر کھلاڑیوں کی آمد کے تناظر میں جرمن فٹ بال ایسو سی ایشن نے ’ایٹ ہوم اِن فٹ بال‘ کے عنوان سے ایک بروشر ڈیزائن کیا ہے تاکہ جرمن فٹ بال کلبوں اور تارکینِ وطن کی یکساں طور پر مدد کی جا سکے۔
بروشر میں ایک طرف جہاں مہاجرین کو جرمن زبان سیکھنے اور فٹ بال کلب میں خود کو ضم کرنے کے حوالے سے رہنمائی کی گئی ہے وہیں جرمن فٹ بال کلبوں کو بھی ایسی تجاویز پیش کی گئی ہیں جن کے ذریعے ذہنی صدمے سے گزر کر آئے اِن ممکنہ مہاجر کھلاڑیوں کی مدد کی جا سکتی ہے۔
پیر مورخہ پندرہ نومبر کو برلن میں ہونے والی انٹیگریشن سمٹ میں جرمن چانسلر میرکل کو پیش کیے جانے والے اِس بروشر کو خاتون فٹ بال کھلاڑی لیرا آلوشی کی پُشت پناہی حاصل ہے۔ اٹھائیس سالہ آلوشی چار برس کی تھیں جب کوسوو سے ہجرت کر کے جرمنی آگئی تھیں۔ آلوشی کا کہنا ہے کہ فٹ بال نے اُنہیں جرمن معاشرے میں ضم ہونے میں بہت مدد فراہم کی۔
آلوشی کا کہنا تھا، ’’ہم جرمنی میں غیر ملکی تھے اور مسترد کر دیے جانے کے خوف سے نبردآزما تھے۔ فٹ بال کے کھیل نے مجھے دوست بنانے میں مدد دی اور نئے سرے سے خود اعتمادی بخشی۔ ‘‘ جرمنی بھر میں تین ہزار کے قریب فٹ بال کلب مرد اور خواتین مہاجرین کو کلبوں میں بھرتی کرنے کی ایک مہم کا آغاز کر رہے ہیں۔
جرمن فٹ بال پر مہاجرین کی آمد سے مرتب ہونے والے اثرات کو نیچے سے اوپر تک ہر سطح پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ فٹ بال کھلاڑی جیسے کہ ہیمبرگ کے اٹھارہ سالہ بیکری جاتا اور وِرڈر بریمن کے انیس سالہ عثمان مانح نے اس فٹ بال سیزن کے لیے بندس لیگ کے کلبوں میں شمولیت اختیار کی ہے۔ یہ دونوں گیمبیا سے ہجرت کر کے جرمنی آئے تھے۔