بدھا کے مجسمے دوبارہ تعمیر کیے جائیں یا نہیں؟
30 نومبر 2016اس علاقے کے مکینوں اور قریبی علاقوں میں کھیتی باڑی کرنے والوں کے لیے یہ نقصان ایسے ہی تھا جیسے خاندان کا ایک فرد کھو دیا ہو۔ اب 15 برس کے بعد ان مجسموں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں تاہم ماہرین بدھا کے ان مجسموں کی تعمیر نو پر تقسیم ہیں اور دو مختلف آراء رکھتے ہیں۔
ان میں سے بعض ماہرین کی رائے ہے کہ ان کو دوبارہ تعمیر کرنے کی بجائے تباہ شدہ مجسموں کی باقیات اور اس تمام سائٹ یا علاقے کو محفوظ کرنا زیادہ وقعت رکھتا ہے۔
افغانستان، جرمنی، جاپان اور فرانس کے علاوہ دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے ماہرین آثار قدیمہ اور ایسے آثار قدیمہ کی بحالی کے ماہرین یکم سے تین جنوری تک جرمن شہر میونخ میں ملاقات کر رہے ہیں۔ اس دوران یہ ماہرین بامیان کے ان بدھا کے حوالے سے معاملات کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی طرف سے عالمی ورثہ قرار دی جانے والی سائٹ کی بحالی بلکہ ایک ایسے معاشرے اور ثقافت کی یادوں کی بحالی کا معاملہ بھی ہے جو انتہائی زیادہ جور وستم کا شکار رہے ہیں۔
بامیان کی چٹانوں میں بنائے گئے بڑے مجسمے سلسال کی بلندی 56 میٹر تھی جبکہ اس کی زنانہ شکل شماما کی اونچائی 38 میٹر۔ ان مجسموں کو طالبان نے اپریل 2001ء میں اس وقت دھماکوں سے تباہ کر دیا تھا جب انہوں نے وہاں کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد وہاں ہزارہ برادری کے ہزاروں افراد کو بھی قتل کر دیا تھا۔
ان مجسموں کو اِس بری طرح سے تباہ کیا گیا ہے ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس کے ٹکڑوں کو جوڑ کر انہیں کبھی دوبارہ تعمیر کرنا ممکن بھی ہو گا یا نہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یونیسکو اور ماہرین آثار قدیمہ نے ان مجسموں کے ٹکڑوں کو جمع تو کیا ہے جو مختلف سائز کے پتھروں کی شکل میں ہیں مگر زیادہ تر حصہ موجود ہی نہیں ہیں کیونکہ وہ مکمل طور پر خاک میں مل گئے تھے۔
بدھا کے ان عظیم مجسموں کی تعمیر نو یا پھر اس تباہ شدہ سائٹ کو محفوظ کرنا کا فیصلہ میونخ میں ہونا مشکل ہے۔ اے ایف پی کے مطابق وہاں ماہرین محض اس بات پر اتفاق کریں گے کہ اس مقام کو محفوظ کیا جائے۔ اس کے علاوہ رواں اختتام ہفتہ پر ابوظہبی میں بھی ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے کے معاملے پر ایک علیحدہ کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ اس کانفرنس میں افغان صدر اشرف غنی بھی شرکت کریں گے۔
تاہم بامیان کے موضوع پر آئندہ برس موسم خزاں میں ٹوکیو میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کے ایجنڈا پر یہ سوال ضرور موجود ہے۔