’تاریخی‘ بین الافغان مذاکرات کل سے شروع
11 ستمبر 2020قطری حکام نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ کئی ماہ سے تاخیر کا شکار طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بین الافغان امن مذاکرات کا آغاز کل (ہفتے) سے دارالحکومت دوحہ میں ہورہا ہے۔
یہ پیش رفت امن مذاکرات کے آغاز میں حائل آخری رکاوٹ، یعنی مغربی ملکوں کے چھ طالبان قیدیوں کی رہائی کی مخالفت ختم ہوجانے کے بعد ہوئی ہے۔ حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ مذاکرات افغانستان میں پچھلے 19 برسوں سے جاری جنگ کے خاتمے اور ملک میں امن کے قیام کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوں گے۔
یہ مذاکرات امریکا کی حمایت سے ہورہے ہیں اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اس میں شرکت کے لیے دوحہ پہنچ رہے ہیں۔ کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے پہلے، جس میں وہ دوبارہ منتخب ہونے کی کوشش کررہے ہیں، امریکی افواج کو 'لامتناہی جنگوں‘ سے نکالنے کے اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ بین الافغان مذاکرات مارچ میں ہی شروع ہونے والے تھے لیکن سینکڑوں سخت گیر طالبان جنگجووں سمیت دیگر قیدیوں کے تبادلے کے معاملے پر تنازعات کی وجہ سے اس عمل کو متعدد بار ٹالنا پڑا تاہم اشرف غنی حکومت کی جانب سے تقریباً تمام جنگجووں کی رہائی کے بعد یہ مذاکرات بالآخر ہفتے کے روز سے شروع ہورہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ 'پومپیو بین الافغان امن مذاکرات کے آغاز کے لیے دوحہ کے تاریخی دورے پر جارہے ہیں۔‘
طالبان، افغان حکومت اور قطری حکام نے جمعرات کودوحہ میں ایک تقریب میں اس بات کی تصدیق کی کہ ہفتے کے روز سے مذکرات شرو ع ہورہے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے ایک بیان میں ان مذاکرات کو دہائیوں کی جنگ اور خونریزی کے خاتمے کا ایک تاریخی موقع قراردیتے ہوئے کہا ”اس موقع کو ضائع نہیں کیا جانا چاہیے۔"
قطری وزارت خارجہ نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ ”یہ مذاکراتی عمل افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کی جانب ایک سنجیدہ اور اہم قدم ہے۔"
افغانستان کے سابق چیف ایگزیکیوٹیو اور افغانستان کی اعلی قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ بھی آج قطر روانہ ہورہے ہیں۔
مفاہمتی کونسل کی طرف سے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ”اعلی قومی مفاہمتی کونسل کو امید ہے کہ طویل انتظار کے بعد یہ مذاکرات ملک میں مستقل امن اور استحکام اور جنگ کے خاتمے کا باعث بنے گی۔"
یہ مذاکرات ایسے وقت ہو رہے ہیں جب ڈونلڈ ٹرمپ کو تین نومبر کے انتخابات میں غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے اور وہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی پر زور دیتے رہے ہیں۔ جن کی تعداد ان کی حکومت میں 12000سے زیادہ ہوگئی تھی۔ تاہم فروری میں امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کے بعد امریکی افواج کی واپسی کا عمل شروع ہوا اور جولائی میں ان کی تعداد 8600 رہ گئی تھی اور امید کی جارہی ہے کہ مزید افواج کے انخلاء کے بعد اکتوبر تک ان کی تعداد گھٹ کر 4500 تک رہ جائے گی۔
ٹرمپ کو امید ہے کہ افغانستان سے افواج کی واپسی کے بعد امریکی ووٹروں میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا، جو تقریباً دو عشروں سے جاری اس مسئلے کی وجہ سے اوب چکے ہیں۔
خیا ل رہے کہ امن مذاکرات کی راہ میں آخری رکاوٹ فرانسیسی اور آسٹریلوی شہریوں اور فوجیوں کی ہلاکت میں ملوث چھ طالبان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے تھی اور اس رکاوٹ کے خاتمے کے چند گھنٹے کے بعد ہی امن مذاکرات کے آغاز کا اعلان کردیا گیا۔
فرانس اور آسٹریلیا نے ان چھ طالبان جنگجوؤں کو رہا کرنے پر اعتراض کیا تھا تاہم ایسا لگتا ہے کہ ان قیدیوں کو قطر بھیج کر ایک سمجھوتہ ہوگیا ہے۔ ان چھ افراد میں ایک سابق افغان فوجی بھی شامل ہیں، جن پر 2012 میں پانچ فرانسیسی فوجیوں کو ہلاک اور 13 دیگر کو زخمی کرنے کا الزام ہے۔ جب کہ آسٹریلیا کے تین فوجیوں کو قتل کرنے والے ایک اور سابق افغان فوجی بھی ان چھ افراد میں شامل ہیں۔
طالبان نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ یہ قیدی دوحہ پہنچ گئے ہیں۔ اس سے قبل طالبان کے ایک ذرائع نے پاکستان میں اے ایف پی کو بتایا کہ ان قیدیوں کو ایک خصوصی طیارے کے ذریعہ کابل سے باہر بھیج دیا گیا ہے۔
طالبان کے عہدیدار نے بتایا کہ اقوام متحدہ رفیوجی ایجنسی کے لیے کام کرنے والی ایک فرانسیسی خاتون کے قتل میں ملوث دو دیگر طالبان قیدیوں کو افغانستان میں ہی رہا کردیا گیا ہے۔ حالانکہ ابتدا میں مذکورہ خاتون کے اہل خانہ اور پیر س نے بھی مخالفت کی تھی۔ افغان حکومت نے طالبان کے عہدیدار کے ان دعووں کی فوری طور پر تصدیق نہیں کی ہے۔
ج ا / ص ز (اے ایف پی)