210611 Solarenergie Kenia
30 جون 2011کینیا کے زیادہ تر شہریوں کی طرح ممباسا کے اس اسکول کے بچے بھی طویل عرصے تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے پریشان رہے ہیں۔ اب لیکن مکانوں کے بیچوں بیچ شمسی توانائی کا ایک نیا پلانٹ لگ چکا ہے، جس کی پیداواری گنجائش 60 کلو واٹ ہے۔ یہ مقدار اس ایس و ایس گاؤں اور اس کے ساتھ بنے اسکول کو بجلی فراہم کرنے کے لیے کافی ہے۔
ساحل کے ساتھ ساتھ سورج سے توانائی حاصل کرنے کے زبردست امکانات موجود ہیں۔ تیرہ سالہ ماریا کہتی ہے:’’ہمارے پاس بہت زیادہ دھوپ ہوتی ہے۔ درجہء حرارت زیادہ تر تیس ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ شمسی سیلوں کے لیے یہ بہت اچھا ہے اور اس سے ہمارے گھروں میں بجلی آتی ہے۔‘‘
دُنیا کے کسی بھی ایس او ایس چلڈرن ولیج میں شمسی توانائی کا اتنا پڑا پلانٹ نصب نہیں ہے، جتنا کہ ممباسا کے اس گاؤں میں۔ چنانچہ جب اس پلانٹ نے کام کرنا شروع کیا، تو اس موقع پر ایس او ایس چلڈرن ولیجز انٹرنیشنل نامی تنظیم کے آسٹریا سے تعلق رکھنے والے صدر ہیلمٹ کوٹین بھی موجود تھے۔ اُنہوں نے کہا:’’ہمالیہ، نیپال میں ہمارے پاس عام سادہ سے شمسی سیل ہیں لیکن اس جگہ پہلی مرتبہ ہم اُس سے کہیں زیادہ مقدار میں بجلی پیدا کر رہے ہیں، جتنی کہ ہمیں یہاں ضرورت ہے۔ یہ پورے کینیا کے لیے ایک مثال ہے کہ ایسا ممکن ہے۔‘‘
اب تک اس مشرقی افریقی ملک کی تمام تر توجہ ہائیڈرو پاور پر ہے تاہم خشک سالی کے دوران یہ طریقہ کام نہیں کرتا۔ جب بجلی دستیاب نہیں ہوتی، تو جو لوگ اس کے متحمل ہو سکتے ہیں، وہ ڈیزل جنریٹرز چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے ہر طرف ڈیزل جلنے کی بُو اور دھواں پھیل جاتا ہے اور ماحول کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ یہ پلانٹ جرمن شہر ہائیڈل برگ کے ایک ادارے نے کینیا کے ایک ساتھی ادارے کے ساتھ مل کر تیار کیا ہے۔ تکنیکی تعاون کی جرمن انجمن جی ٹی زیڈ کے زیر نگرانی تیار ہونے والے اس پلانٹ پر ایک لاکھ اَسی ہزار یورو لاگت آئی ہے۔
چونکہ اس ایس او ایس ولیج میں ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا ہوتی ہے، اس لیے اب ایسے امکانات تلاش کیے جا رہے ہیں، جن کی مدد سے اضافی بجلی فروخت کی جا سکے۔ اس طرح بچوں کے اس گاؤں کو اضافی آمدنی بھی حاصل ہو سکے گی۔
رپورٹ: آنچے ڈِیک ہنس (نیروبی) / امجد علی
ادارت: افسر اعوان