1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تبدیلی کی سوچ بصیرت سے ہوتی ہے بصارت سے نہیں

15 مارچ 2010

سابریئے ٹن بیرکن اور ان کے شوہرپاؤل کرونین برگ کا تعلق جرمنی سے ہے۔ یہ خاتون نابینا ہیں اور اپنے شوہر کے ساتھ مل کر خاص طور پر تبت میں نابینا بچوں کی تعلیم کے لئے نمایاں خدمات انجام دے چکی ہیں۔

https://p.dw.com/p/MThA
سابریئے ٹن بیرکنتصویر: AP

سابریئے ٹن بیرکن یوں تو نابینا ہیں مگر دنیا میں نابینا افراد، خاص طور پر بچوں کے حالات زندگی بہتر بنانے اور انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے حوالے سے وہ بڑی بصیرت کی مالک ہیں۔

ابھی حال ہی میں ڈوئچے ویلے کے ایک دورے کے دوران انہوں نے اپنے ایک نئے منصوبے کی تفصیلات پر کھل کر روشنی ڈالی۔ یہ منصوبہ بھارتی ریاست کیرالہ میں نابینا اور کم بینائی والے افراد سے متعلق سماجی کارکنوں کے ایک بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ کا پروجیکٹ ہے۔

1998میں جب سابریئے تبت گئیں تو وہاں انہوں نے نابینا افراد کولکھنا پڑھنا سکھانے کا ایک منصوبہ متعارف کرایا۔ان کا کہنا ہے کہ کسی انسان کے نابینا پن کو اس کی معذوری کےبجائے کامیابی کے موقع کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

Sabriye Tenberken
لندن 2004میں ہیرو ایوارڈ حاصل کرتے ہوئےتصویر: AP

دس سال قبل سابریئے اور پاؤل نے تبت میں جو سکول قائم کیا، اُس کا نام ہے Braille Without Borders، یعنی نابینا افراد کے استعمال میں آنے والا بریل رسم الخط، جسے چھو کر پڑھا جاتا ہے، سرحدوں سے پاک۔

سابریئے اور پاؤل نے بتایا کہ اس سکول کے ذریعے آج تبت میں بہت سے ایسے بچوں کو تعلیم دی جا چکی ہے، اور انہیں معاشرتی کامیابی کے مواقع میسر ہیں، جنہیں ماضی میں محض معذور قرار دے کر ان سے کنارہ کشی کی کوشش کی جاتی تھی۔

پاؤل کرونین برگ کا اپنی تنظیم کےبارے میں کہنا تھا کہ بریل ودآؤٹ بارڈرز ایک ایسی تنظیم ہے جو دنیا بھر میں نابینا اور کم بینائی والے افراد کی حالت کو بہتر بنانے اور انہیں ان کے حقوق دلوانے کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔ ہمارا نابینا بچوں کے لئے قائم کردہ ایک سکول بھی ہے۔

اس کے علاوہ ایک ایسا پیشہ ورانہ تربیتی پروگرام بھی جہاں نابینا افراد کو جانوروں کی دیکھ بھال، ان کے علاج، زراعت اور باغبانی وغیرہ کی تربیت دی جاتی ہے۔ہماری ایک پنیر بنانے والی فیکٹری بھی ہے اور کھاد تیار کرنے کا ایک یونٹ بھی۔ اس کے علاوہ ہم نے بریل کتابیں چھاپنے والا اپنا ایک پریس بھی لگا رکھا ہے اور ہماری تنظیم کے ذریعے نابینا افراد کے سماجی انضمام کے ایک منصوبے پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔

یہی نہیں سابریئے اور پاؤل کے قائم کردہ ادارے نے تبت میں نابینا افراد کے لئے بریل کتابیں چھاپنے والا ایک پریس بھی قائم کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ اس ادارے کے پنیر اور کھاد تیار کرنے کے اپنے پیداواری یونٹ بھی ہیں، جہاں نابینا افراد کام کرتے ہیں۔ اب اس جرمن جوڑے کی کوشش ہے کہ اس بریل سسٹم کودیگر ملکوں میں بھی متعارف کرایا جائے، جو وہ تبت میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ بریل سسٹم اتنا کامیاب ہے کہ اسے تبتی زبان کا سرکاری بریل رسم الخط تسلیم کیا جا چکا ہے۔

جرمنی میں بون یونیورسٹی کی فارغ التحصیل سابریئے ٹین بیرکن کونابینا افراد کی فلاح وبہبود کے لئے ان کی کوششوں کے اعتراف میں اب تک کئی ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔ ان میں مدر ٹیریسا ایوارڈ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ 2005میں ان کا نام نوبل امن انعام کے لئے بھی نامزد کیا گیا تھا۔

سابریئے کو گھڑ سواری بہت پسند ہے اور وہ تبت میں کوہ پیمائی بھی بڑے شوق سے کرتی ہیں۔ان کی شخصیت اور اب تک حاصل کردہ کامیابیوں نے ایک بات ثابت کر دی ہے۔ تبدیلی کی سوچ اور بہتری کی خواہش کا تعلق بصیرت سے ہوتا ہے،بصارت سے نہیں۔

رپورٹ عصمت جبیں

ادارت کشور مصطفی