1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تبصرہ: مہاجرین کی ڈیل پر تاریک سائے منڈلاتے ہوئے

21 مئی 2016

بتدریج آمرانہ طرز حکومت کا مظاہرہ کرتے ترک صدر ایردوآن مہاجرین سے متعلق پالیسیوں پر عمل درآمد کے حوالے سے یورپی یونین کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں، مگر قصور یورپی یونین کا اپنا ہے۔ ڈی ڈبلیو کے بَیرنڈ ریگرٹ کا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/1IsIW
Symbolbild EU Türkei Beitritt
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Petit Tesson

مہاجرین سے متعلق یورپی یونین کی پالیسیاں متعدد جانب سے دباؤ اور تنقید کا شکار ہیں۔ مارچ میں ترکی اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد حالاں کہ مہاجرین کی یورپ آمد کا سلسلہ خاصا کم ہوا ہے، تاہم بحیرہء ایجیئن عبور کر کے یونانی جزائر کا رخ کرنے والے نئے مہاجرین کی تعداد میں کمی کے باوجود اب بھی یہ جزائر ایک افراتفری کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

ترکی نے اپنے حصے کا کام کسی حد تک کر دیا، مگر یورپی یونین نے ابھی کچھ نہیں کیا۔ یورپی یونین کی رکن ریاستوں کی طرف سے یونان کی کافی مدد نہیں کی جا رہی اور یونان خود بھی ان مہاجرین کی رجسٹریشن کے عمل کو تیز رفتار بنانے میں ناکام رہا ہے۔

’ترکی ہمارے لیے سب کچھ کر دے گا‘ کی امید

Deutsche Welle Bernd Riegert
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار بَیرنڈ ریگرٹ

دو ماہ قبل یورپی سربراہانِ مملکت و حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ اب سب کچھ تیز رفتاری سے ہو گا۔ مگر زمینی حقائق اب بھی ویسے ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ یورپی یونین مہاجرین کے اپنے مسئلے کو ترکی پر ڈالتی اور انقرہ پر مکمل انحصار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یونان اور اٹلی میں موجود مہاجرین کی دیگر رکن ریاستوں میں آبادکاری کا معاملہ ہو یا یونان سے ترکی واپس بھیجے جانے والے مہاجرین کے بدلے ترکی میں موجود کسی شامی مہاجر کی یورپ منتقلی کا، دونوں ہی معاملات کئی بار کے اعلانات کے باوجود انتہائی سست روی کا شکار ہیں۔ یورپی یک جہتی، جو یورپی یونین کی ایک بنیادی قدر سمجھی جاتی ہے، اس معاملے میں رکن ریاستوں کے درمیان بالکل بھی دکھائی نہیں دیتی۔ زیادہ تر ممالک بس اس سوچ کے ساتھ کام کر رہے ہیں، ’’بنیادی بات یہ ہے کہ مزید مہاجرین میری طرف نہ آئیں، طویل المدتی بنیادوں پر کیا ہو گا، مجھے اس کی کوئی فکر نہیں۔‘‘

یونان کو اب مہاجرین کے معاملے پر تقریباﹰ تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ بحیرہء روم کے ذریعے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کے معاملے میں بھی یورپی رویہ کچھ اسی طرح کا ہے۔ طویل المدتی بنیادوں پر قانونی طور پر یورپ پہنچنے کے مواقع پیدا کرنے کی بجائے یورپی یونین کی مہاجرین سے متعلق پالیسی خود یونین کو ہی تنہا کرتی جا رہی ہے۔

ترکی کے اپنے مفادات

سچائی یہ ہے کہ مقامی سیاسی فائدے، میڈیا پر دباؤ، پارلیمان کی طاقت میں کمی، اظہارِ رائے پر قدغن اور انسدادِ دہشت گردی کے مبہم مگر سخت قوانین کے تناظر میں رجب طیب ایردوآن اس ڈیل پر عمل درآمد کو مشکل ترین بنا رہے ہیں۔ ترکی کی جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ اس ڈیل کے مطابق ترک شہریوں کے لیے شینگن ممالک کے بغیر ویزا سفر کی اجازت دی جائے، تاہم خود ترکی یورپی مطالبات مان کر اپنے ہاں قوانین میں کوئی تبدیلی کرنے پر راضی نہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ اگر ترکی اپنے ہاں قوانین میں تبدیلی نہیں کرتا، تو یورپی پارلیمان ترک شہریوں کو ویزا فری سفر کی اجازت نہیں دے گی۔ ادھر ترک صدر ایردوآن واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ایسی صورت میں وہ یہ ڈیل منسوخ کر دیں گے۔