تبصرہ: کورونا وائرس میں مذاہب جیسے خاموش
10 اپریل 2020کیتھولک ماہرمذہب ژوہان بیپٹسٹ میٹس، جو ابھی دسمبر میں انتقال کر گئے، نے کہا تھا، ''مذہب کی مختصر ترین تعریف ہے، تشریح۔‘‘
جرمن ماہر مذہب میٹس نے 'نیو پولیٹیکل تھیولوجی‘‘ کی بنیاد رکھی تھی، جو ایک طرف معاشرے کے کم زور طبقے کو سربلندی کی نوید دیتی ہے اور دوسری جانب مذہب کی مادیت پسند تشریحات سے خبردار بھی کرتی ہے۔
اس وقت دنیا کورونا وائرس کی وجہ سے سرحدوں اور سماجی سطح پر بندشوں کا شکار ہے۔ کورونا وائرس کی لیکن کوئی سرحد نہیں۔ یہ ایک بین الاقوامی وبا اور عالمی خطرہ ہے۔ دنیا اس وقت تھمی ہوئی ہے۔ دنیا اس وقت خوف کا شکار ہے۔
جب افریقہ میں لاکھوں افراد بھوک اور قحط سے موت کے منہ میں چلے گئے، جب آتش فشاں کے لاوے نے آئس لینڈ کی فضا کو ڈھانپ ڈالا، جب سونامی کی لہریں ایشیا میں تباہی پھیرتی نظر آئیں، تو دنیا یہ تماشا فقط دور سے دیکھتی رہی، مگر وبا کا معاملہ مختلف ہے کیوں کہ اس کا نشانہ سب ہوتے ہیں۔
اسی وجہ سے بڑی وبا کئی طرح کے مذہبی اور روحانی سوالات پیدا کر دیتی ہے۔ ہر پیروکار کو یہ قبول کرنا ہوتا ہے کہ تکلیف، دکھ، شک اور غصہ جیسے عناصر خدا کی تخلیقات میں موجود ہیں۔ مگر کچھ اسے خدا کا عذاب قرار دینے لگتے ہیں اور یہیں سے خدا کے تشخص میں ابہام کی بنیاد بھی پڑتی ہے۔
یہودی اور مسلم ردعمل
دنیا بھر کے مسیحی اس وقت اپنا مقدس ترین ہفتہ منا رہے ہیں، جس میں تکلیف، موت، حساب اور یسوع مسیح کے دوبارہ زندہ ہو جانے کی روایت منائی جا رہی ہے۔ دوسری جانب یہودی برادری مصریوں کی غلامی سے آزادی کا دو ہفتوں پر مشتمل مقدس روایت کا جشن بدھ کے روز سے شروع کر چکی ہے اور مسلمان چند روز بعد شروع ہونے والے مقدس ماہ رمضان کی تیاری میں مصروف ہیں۔
ان تینوں مذاہب کے ان روایتی تہواروں میں ایک شے مشترک ہے اور وہ ہے، مل کر کھانا کھانا۔ یہودی سیدر، مسیحیوں کا لاسٹ سپر یا آخری کھانا اور مسلمانوں کی روزہ افطاری، سب میں مل کر کھانا کھایا جاتا ہے مگر ان تینوں مذاہب کو اس بار یہ سب ماضی کی روایات سے ہٹ کر منانا پڑ رہا ہے۔
لیکن حالات یہ ہیں کہ اسرائیل میں سخت گیر یہودی حکومتی ہدایات کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں اور دوسری جانب سعودی عرب میں حج کے روایتی اجتماع کی منسوخی جیسے انتہائی مشکل فیصلے پر غور ہو رہا ہے۔ مگر ان مشکل ترین حالات میں اہم مذہبی رہنما پیروکاروں سے التماس کر رہے ہیں کہ وہ حکومتی ہدایات پر عمل کریں، تاکہ اس وبا کی تباہ کاری کو کم کیا جا سکے۔
خالی چوک
روم کے مرکز میں اُربی ایٹ اوربی (The Urbi et orbi) میں سینٹ پیٹرز اسکوائر جہاں پوپ فرانسِس کو مارچ کے اختتام پر دعائیہ اجتماع کی قیادت کرنا تھی، اس بار خالی تھا۔ اس بار وہ دعا کر رہے تھے، مگر سامنے فقط خاموشی اور سناٹے کا اجتماع تھا۔ سماجی بندشوں نے جیسے دنیا کی چہل پل کو روک کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت ایسٹر کی شام ہے مگر لگتا ہے جیسے کوئی امید موجود نہیں۔
اٹلی، اسپین اور امریکا میں روزانہ کی بنیاد پر ہلاکتیں اور جرمنی اور دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافہ ایک بڑا دھچکا ہے۔ اس صورت حال میں زندگی کے معمولات تو متاثر ہوئے ہیں، مگر جو باقی بچا ہے وہ ہے شک، درد اور خلفشار۔ ماضی کے امید افزا بیانات اس بار زیادہ پراثر دکھائی نہیں دے رہے۔ اس وقت چرچ کے افعال اپنے الفاظ سے زیادہ تمثیل میں سمٹے ہوئے ہیں۔ ایسے وقتوں میں مسیحیت کا ایک اور لفظ شاید نہایت اہم لگ رہا ہے، وہ ہے دوبارہ احیاء۔ یہ لفظ شاید امید بھی ہے اور زندگی کی جانب دوبارہ لوٹ جانے کا ایک خیال بھی۔