تجارتی جنگ کے خطرات میں برکس اقوام کا متحد رہنے کا عزم
27 جولائی 2018برکس ملکوں کی سہ روزہ سمٹ پچیس جولائی کو شروع ہوئی تھی۔ اس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، چین کے صدر شی جِن پنگ، روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور برازیلی صدر کے علاوہ میزبان ملک کے صدر سیرل رامافوسا شریک تھے۔
اس سمٹ کے اختتامی اعلامیے میں دنیا کی ابھرتی معیشتوں کے حامل ان ممالک کے رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ تجارتی جنگ کے منڈلاتے خطرات کے سائے میں اتفاق و اتحاد برقرار رکھا جائے گا۔ مشترکہ اعلامیے کہا گیا کہ حالیہ کچھ عرصے میں بعض ترقی یافتہ اقوام کی جانب سے عمومی معاشی عوامل (Macro-economicPpolicy) کے تناظر میں کیے جانے والے اقدامات باعث تشویش ہیں۔
یہ بھی واضح کیا گیا کہ کہ پانچوں اقوام اس پر بھی متفق ہیں کہ کھلی عالمی اقتصادیات کے اس دور میں اس وقت کثیرالجہتی تجارتی سرگرمیوں کو شدید چلنجز کا سامنا ہے۔ مشترکہ اعلامیے کے مطابق قریبی اقتصادی روابط ان اقوام میں خوشحالی کا باعث ہوں گے اور یہ اس تنظیم کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔
اس اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے روس کے صدر پوٹن نے کہا کہ برکس کے پاس ساری دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ رکھنے کا اعزاز حاصل ہے اور ان پانچوں رکن ملکوں کا جی ڈی پی، عالمی شرح نمو کا مشترکہ طور پر بیالیس فیصد بنتا ہے۔
اس سمٹ کے دوسرے دن اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے چینی صدر نے کہا تھا کہ تنظیم کے رکن ممالک کو کثیر الجہتی پالیسیوں کے ساتھ نتھی ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ برکس کی سمٹ ایسے وقت میں ہوئی جب امریکا اور چین کسی حد تک تجارتی جنگ کا حصہ بن چکے ہیں۔
اسی طرح برکس تنظیم کی پانچوں رکن ریاستوں کے درمیان قریبی رابطہ کاری کو مزید مستحکم کرنے پر روسی صدر نے بھی زور دیا۔ دوسری جانب جوہانس برگ سمٹ سے تقریباً ایک ہفتے قبل روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی اپنے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہیلسنکی میں ملاقات بھی ہوئی تھی۔
جوہانس برگ میں ہونے والے اس اجلاس میں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے بھی خصوصی شرکت کی۔ ان کی اجلاس میں شرکت مسلمان ملکوں کی تنظیم او آئی سی کے سربراہ ملک کی حیثیت سے تھی۔ ایردوآن نے روسی صدر سے ملاقات میں شام کی صورت حال پر بات چیت کی۔