’تحریک لبیک‘ کو مزید مہلت دے دی گئی
18 نومبر 2017خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے مقامی میڈیا کے حوالے سے بروز ہفتہ بتایا ہے کہ ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ سے تعلق رکھنے والے تقریبا دو ہزار افراد فیض آباد میں موجود ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ عدالت اور پھر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی طرف سے اس دھرنے کو ختم کرنے فیصلے کے بعد اس مذہبی جماعت کے مزید کارکن فیض آباد پہنچ گئے ہیں۔
لاہور سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ جاری
ایسا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر سکیورٹی فورسز طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو اس سے تشدد پھیل سکتا ہے۔
اسی تناظر میں پاکستانی وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے اس معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کے لیے دھرنے میں شریک مظاہرین کو مزید وقت دینے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ’اگر مظاہرین ریاست کو یرغمال بنانے کی کوشش کریں گے تو یہ بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا‘۔ احسن اقبال نے مزید کہا کہ عدالتی حکم کے بعد یہ لازمی ہے کہ اس دھرنے کو ختم کر دیا جائے۔
ایک سرکاری اہلکار خالق عباسی کے بقول ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ کے حامی مظاہرین لوہے کی سلاخوں اور ڈنڈوں سے لیس ہیں جبکہ ڈپٹی کشمنر نے بتایا ہے کہ کچھ مظاہرین کے پاس اسلحہ بھی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ مظاہرین کو اشتعال انگیزی یا دارالحکومت میں کسی قسم کی بدامنی پھیلانے سے روکنے کی خاطر سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے جبکہ بیشتر راستوں کو کنٹینرز کے ذریعے بند کر دیا گیا ہے۔ اس صورتحال میں جڑواں شہروں کے باسیوں کی روزرہ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
قبل ازیں عدالت نے متعلقہ ضلعی انتظامیہ کو دھرنے کو ختم کروانے کی ہدایت جاری کیں تھیں۔ اس عدالتی حکم پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے مظاہرین کو خبردار کیا تھا کہ اگر انہوں نے دھرنا ختم نہ کیا تو ممکنہ طور پر کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔ تاہم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم ڈپٹی کمشنر کے احکامات پر عملدرآمد نہیں کریں گے‘۔ اس تناظر میں ممکنہ تشدد سے بچنے کی خاطر احسن اقبال نے اس مذہبی جماعت کو مزید چوبیس گھنٹے کی مہلت دینے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
اسلام آباد میں مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ کے کارکنان نے انتخابی اصلاحات کے مسودہ قانون میں حلف اٹھانے کی مد میں کی گئی ترمیم کے ذمہ داران کے خلاف دھرنا دے رکھا ہے۔ اس تحریک کے کارکنان کا مطالبہ تھا کہ ترمیم کے مبینہ طور پر ذمہ دار وفاقی وزیر زاہد حامد کو فوری طور پر اُن کے عہدے سے برخاست کیا جائے۔