تحفظ نسواں ایکٹ غیر اسلامی، اسلامی نظریاتی کونسل
19 ستمبر 2013جمیعت علماء اسلام (ف) کے رکن قومی اسمبلی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانامحمد شیرانی کی زیر صدارت کونسل کا دو روزہ اجلاس آج جمعرات کو اسلام آباد میں اختتام پزیر ہو گیا۔
اجلاس کے بعد جاری کیے گئے ایک مختصر اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کونسل کے اراکین نے توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کی روک تھام، تحفظ نسواں ایکٹ، ڈی این اے ٹیسٹ کی سفارش پر میڈیا اور بعض اداروں اور شخصیات کے رد عمل سمیت دیگر امور کے حوالے سے سفارشات کے مسودے کو حتمی شکل دے دی ہے۔
تاہم ان سفارشات کے بارے میں تفصیلات کو فوری سامنے لانے سے گریز کیا گیا ہے۔ اس بارے میں کونسل کے چیئرمین محمد خان شیرانی کا کہنا ہے کہ وہ ان حساس موضوعات پر جلد بازی میں کوئی چیز میڈیا کے سامنے نہیں لانا چاہتے۔ انہوں نے کونسل کے اجلاس کے پہلے دن کی کاروائی سے متعلق ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی خبروں کو بھی غلط رپورٹنگ قرار دیا۔
البتہ اس اجلاس میں شریک کونسل کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کونسل نے تحفظ نسواں ایکٹ 2006ء کومسترد کردیا ہے۔ اس ایکٹ کی منظوری سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں پارلیمنٹ نے دی تھی۔
ذرائع کے مطابق کونسل کے اراکین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بل کی اکثر دفعات اسلامی قوانین سے متصادم ہیں اور منظوری سے قبل تحفظ نسواں ایکٹ کی اسلامی نظریاتی کونسل سے باضابطہ منظوری بھی نہیں لی گئی تھی۔ بعض اراکین کا کہنا تھا کہ بل کی منظوری سے ملک میں خواتین پر تشدد اور زیادتی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا اوریہ قا نون خواتین کو تحفظ دینے میں ناکام رہا۔
خواتین کے حقوق کے لیےکام کرنے والی کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ کونسل کے اس طرح کے فیصلے سے جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے کیونکہ اس ایکٹ کو مسترد کرنے سے مجرموں کو مزید شہ ملے گی۔
کونسل کے اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ توہین رسالت کے موجودہ قانون میں ترمیم کی ضرورت نہیں۔ اجلاس کے شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اس قا نون کا غلط استعمال روکنے کے لیے اس قانون کا نفاذ کیا جائے جو جھوٹی ایف آئی آر درج کرانے والے کے خلاف لا گو ہوتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا شیرانی نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کسی بھی قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے بھی قوانین موجود ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’اگر کوئی قانون ایسا ہے کہ اس کا غلط استعمال ہوا، چاہے کسی نے بھی کیا ہو تو اس کے تدارک کے لیے بھی قوانین موجود ہیں۔ ان پر عملدرآمد عدلیہ کا کام ہے، اسلامی نظریاتی کونسل کا نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ قانون کا غلط استعمال اگر کسی بھی صورت میں ہوتا ہے تو اس کے تدارک کے لیے تعذیرات پاکستان میں الگ سے دفعات موجود ہیں۔‘‘
کونسل کے اجلاس میں جنسی زیادتی کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بطور بنیادی شہادت قبول نہ کرنے کے اپنے سابق فیصلے کا بھی دفاع کیا گیا۔ اجلاس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ ڈی این کو بطور شہادت استعمال کرنے سے متعلق میڈیا نے کونسل کی سفارش کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جس سے ابہام پیدا ہوا۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ کونسل نے یہ سفارش کی تھی کہ زیادتی کے مقدمات میں ڈی این اے کو ثانوی ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے لیکن تنہا اس ثبوت کی بنیاد پر کسی کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل ایک ایسا آئینی ادارہ ہے جو ملک میں ایسے قوانین تجویز کرنے یا انہیں ختم کرنے کی سفارش کرنے کا اختیار رکھتا ہے جو اسلامی شریعت یا سنت سے متصادم ہوں۔ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علماء اور اسکالرز اس کونسل کے ارکان ہیں۔