تحقیق: کمپیوٹر نوجوانوں کی بہتر کارکردگی میں رکاوٹ
28 نومبر 2010لیکن حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے نتائج ان تمام نظریات سے مختلف نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر رومانیہ میں ایک سرکاری پروگرام کے تحت جن بچوں کو کمپیوٹر خرید کر دیا گیا، سکول میں اُن کی کارکردگی خراب ہوتی چلی گئی۔
دنیا میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ نوجوانوں نے کمپیوٹر کا استعمال شروع کیا اور اس کے بعد اُن پر ترقی کی راہیں کھلتی چلی گئیں۔ کمپیوٹر کی مدد سے بے شمار نوجوانوں کو دولت بھی ملی اور شہرت بھی۔
لیکن کچھ حلقوں کے خیال میں دنیا کے زیادہ تر نوجوان کمپیوٹر کے ذریعے نہ تو امیر ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کا مستقبل روشن ہوتا ہے۔ جرمن ماہراقتصادیات تھوماس فُکس کی سن 2004 ء میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق وہ نوجوان جو کمپیوٹر پر زیادہ وقت گزارتے ہیں، اپنے امتحانات میں اچھے نمبروں سے پاس نہیں ہوتے۔
نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے ایک محقق پروفیسر کرسٹیان پوپ کی حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق کا موضوع یہ تھا کہ کمپیوٹر کا استعمال نوجوانوں کی تعلیمی کارکردگی پر کیا اثر ڈالتا ہے۔ یہ تحقیق رومانیہ کےان غریب بچوں پر کی گئی، جن کو ایک پروگرام کے تحت حکومت کی طرف سے کمپیوٹر خرید کر دئے گئے تھے۔ اس تحقیق میں تین ہزار کنبوں نے حصہ لیا۔ پروفیسر کر سٹیان کا اس بارے میں کہنا تھا۔
’’ہماری تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کمپیوٹر کے استعمال کے منفی اثرات بھی ہوتے ہیں اور مثبت بھی۔ وہ طالب علم، جنہیں کمپیوٹر خرید کر دیا گیا تھا، کمپیوٹر کے مضمون میں تواچھے تھے لیکن دوسرے مضامین جیسے کہ ریاضی اور انگش میں ان کی کارگردگی پہلے سے بھی بری تھی۔‘‘
اس تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ حکومت کی طرف سے لے کر دئے گئے کمپیوٹرز کے استعمال سے طالبعلموں کا وقت ضائع ہوا۔ پروفیسر کرسٹیان اس بارے میں مزید کہتے ہیں۔" بدقسمتی سے طالبعلموں نے کمپیوٹر کا صحیح استعمال نہیں کیا۔ ان کو چاہئے تھا کہ وہ اس کا استعمال مثبت چیزوں کے لئے کرتے، لیکن وہ صرف گیمیں کھیلتے رہے۔‘‘
جرمنی میں جرائم پر تحقیق کے ایک ادارے سے وابستہ ماہر نفسیات فلوریان ریہبائن کا کہنا ہے کہ زیادہ دیر تک کمپیوٹر کا استعمال طالب علموں کی لکھنے پڑھنے کی صلاحیت پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ایک طالب علم تعلیم و تربیت کی بجائے گیمز کی طرف کیوں زیادہ متوجہ ہوتا ہے، اس بارے میں وہ کہتے ہیں۔
’’اس بارے میں مختلف نظریات ہیں۔ ایک روایتی نظریہ وقت ٹالنے سے متعلق ہے یعنی طالب علم اور چیزوں کے مقابلے میں لکھنے پڑھنے کو کم وقت دیتا ہے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ طالب علم کو جو شاباش سکول میں نہیں ملتی، اُس کا ازالہ وہ کسی کمپیوٹر گیم میں کامیاب ہو کر کر لیتا ہے اور اِسی لئے اُس طرف زیادہ متوجہ بھی ہوتا ہے۔‘‘
پروفیسر فُکس کا کہنا ہے کہ ان تمام معلومات کے باوجود ہمیں یہ نہیں کہنا چاہئے کہ کمپیوٹر سٹوڈنٹس کے روشن مستقبل میں ایک رکاوٹ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر والدین کو پتہ ہو کہ ان کے بچے کمپیوٹر کا استعمال کن چیزوں کے لئے کرتے ہیں، تو شاید نتائج اتنے برے نہ ہوں۔ اُن کے خیال میں ضروری بات یہ ہے کہ کمپیوٹر کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے نہ کہ یہ سوال اٹھایا جائے کہ سرے سے کمپیوٹر کا استعمال کیا جانا چاہیے یا نہیں۔
رپورٹ: الیگذانڈرا شیرلے / امتیاز احمد
ادارت: امجد علی