تخلیقی تنہائی: کورونا وائرس میں فن کاروں کی زندگی
آئیگور لیوٹ اور آئی وائی وائی جیسے موجودہ دور کے فنکار ہوں یا انیسویں صدی کے وکٹر ہوگو جیسے نام، تنہائی عرصہ دراز سے فن و تخلیق کو جنم دیتی آئی ہے۔
ٹویٹر پر لائیو کانسرٹ
نئے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران روسی نژاد جرمن پیانو نواز آئیگور لیوٹ آج کل ہر شام ٹویٹر پر لائیو کانسرٹ نشر کرتے ہیں۔ ان کی یہ کاوش ان کے مداحوں میں خاصی مقبول بھی ہو رہی ہے۔ اپنے وقت کو کارآمد بنانے اور اپنے مداحوں سے رابطے میں رہنے کا یہ لیوٹ کا انوکھا انداز ہے۔
ادب کا ایک نیا باب
کبھی پرندوں کے چہچہانے کی آواز، کبھی صبح کی نم ہوا تو کبھی کسی درخت کے تنے پر نشانات، معروف فرانسیسی مصنفہ لیلی سلیمانی اپنی قرنطینہ ڈائری میں وہ سب لکھ ڈالتی ہیں جو ان کی نگاہ سے گزرتا ہے۔ ان کی یہ ڈائری فرانسیسی اخبار ’لی موندے‘ میں شائع ہو رہی ہے۔
کام کیسے کیا؟ یہ بھی ایک آرٹ
کورونا وائرس کی عالمگیر وبا سے قبل انتیس سالہ الیگزینڈر اسکین نے خود کو برلن کی سیکساؤر گیلری میں پچاس دنوں کے لیے قید کر لیا تھا۔ اس دوران وہ ایک پینٹنگ پر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے پچاس دنوں تک ہر روز آٹھ گھنٹے تک اپنی سرگرمیوں کو ریکارڈ کیا، جن میں حتی کہ وہ کھاتے اور سوتے ہوئے بھی نظر آئے۔ یہ پینٹنگ اب عالمی وبا کے بعد ہی فروخت ہو سکے گی۔
نظر بندی کا ایک سال
روسی تھیٹر ڈائریکٹر کیریل سیریبرینیکوو خود ساختہ طور پر اٹھارہ ماہ کے لیے نظر بند رہے تاہم وہ اس دوران بہت کچھ کرتے رہے۔ اب وہ ایک ویڈیو میں لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ بندش میں وقت کو کیسے کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔ سیریبرینیکوو کی نظر بندی ایک سال قبل ختم ہوئی۔
بھارت میں مراقبہ
سربین فنکارہ مارینہ ابرامووچ ہر سال کے اختتام پر بھارت چلی جاتی ہیں۔ وہ یہ وقت تنہائی میں مراقبہ کر کے گزارتی ہیں۔ مارینہ کے بقول یہ جسم اور روح کو تروتازہ رکھنے کے لیے لازمی ہے۔
حراست میں بھی ہمت نہ ہاری
چینی فنکار آئی وائی وائی کو سن 2009 میں گرفتار کر کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اتنا تشدد کہ وہ ’سیریبرل ہیمرج‘کا شکار ہو گئے تھے۔ آئی وائی وائی نے اس وقت بھی اپنا کام جاری رکھا۔
آٹھ سال کے لیے نظر بند
شاعر، پینٹر اور فوٹو گرافر لو شیاباؤ کو چینی حکومت نے آٹھ سال کے لیے نظر بند رکھا۔ مگر اس نوبل انعام یافتہ فنکار نے ہمت نہ ہاری اور تخلیق جاری رکھی۔ بعد ازاں ان کے کئی فن پاروں کی نمائش برلن میں بھی ہوئی۔
دور جدید کا روسی ادب، تنہائی میں تخلیق ہوا
دور جدید کے روسی ادب کے تخلیق کار شاعر الیگزینڈر پشکن سن 1830 میں چند ماہ کے لیے خود ساختہ نظر بندی میں چلے گئے تھے۔ ان کے اس اقدام کا مقصد ہیضے کی وبا سے بچنا تھا۔ اسی دور میں پشکن نے کئی کہانیاں، اشعار اور ناول لکھے۔