1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترقیاتی شعبے میں تعاون، ایک منافع بخش کاروبار

عدنان اسحاق 4 جولائی 2013

ترقیاتی شعبے میں سرگرم افراد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس دوران وہ بہت سے سماجی کام سرانجام دیتے ہیں۔ تاہم اس دوران ترقیاتی شعبے میں تعاون ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/192Bu
تصویر: Peter Atkins/Fotolia

بین الاقوامی تعاون کی جرمن تنظیم ’جی آئی زیڈ‘ نے بتایا کہ گزشتہ برس ان کا کاروباری حجم 2.1 ارب یورو رہا۔ جی آئی زیڈ کے بورڈ کی ترجمان تانیا گؤنر کے بقول ان کے ادارے نے ایک نئی حکمت عملی ترتیب دی ہے اور یہ کامیابی اُسی کا نتیجہ ہیں۔ مطلب یہ کہ ان کے ادارے نے کاروبار کے نت نئے طریقوں پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس دوران جی آئی زیڈ نے بحران کے شکار ملک یونان کی حکومت کو مسائل حل کرنے کے حوالے سے مشورے دیے ہیں۔ ساتھ ہی ایتھنز حکام کو یہ بھی سمجھایا ہے کہ صحت کے شعبے میں کون سی اصلاحات لائی جانی چاہییں۔

جرمن ڈیویلمپنٹ سروس ’ڈی ای ڈی‘ کے ایک کارکن Manfred Dassio کہتے ہیں’’ ماضی میں ڈی ای ڈی کے کام کرنے کا طریقہ کار بالکل ہی مختلف تھا۔ وہ مقامی ساتھیوں کے مدد سے معلوم کرتی تھی کہ کیا کرنا ضروری ہے اور پھر اس پر کام کیا جاتا تھا۔ اب کام کرنے کا یہ انداز بالکل ہی ختم ہو گیا ہے‘‘۔۔

Zentrale der Deutschen Gesellschaft für Internationale Zusammenarbeit GIZ Logo
ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے اپنی نئی حکمت عملی تیار کی ہے، ڈائریکٹر ہنس یوآخم پروئستصویر: picture-alliance/dpa

Dassio کا خیال ہے کہ ترقیاتی مقاصد کے لیے ماہرین پر مشتمل ٹیموں کو بیرون ملک بھیجنےکے اس نئے طریقہ کار کی وجہ سے اس شعبے کے پرانے کارکنوں کے آپس کے تعلقات متاثر ہو رہے ہیں۔Dassio تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ جی آئی زیڈ کی جانب سے انتخاب میں سول سوسائٹی کو فوقیت نہیں دی جاتی۔ جی آئی زیڈ کا موقف ہے کہ وہ تمام زاویوں سے جائزہ لینے کے بعد تجارتی بنیادوں پر فیصلے کرتے ہیں بالکل ایک کاروباری ادارے کی طرح‘‘

اس دوران جی آئی زیڈ کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ اس تنظیم نے امریکا میں بھی اپنا ایک دفتر قائم کر لیا ہے۔ وہاں بھی یہ ادارہ پیشہ ورانہ تربیت کے شعبے میں امریکی حکومت کو صلاح و مشورے دے رہا ہے۔ جی آئی زیڈ زیادہ سے زیادہ ممالک اور اداروں تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے جی آئی زیڈ کی تانیا گؤنر نے کہا کہ دائرہ وسیع کرنے کے لیے لازمی ہے کہ ادارے کو اس امر کا علم ہونا چاہیےکہ وہ کیا کچھ کر سکتا ہے اور دیگر ممالک کو کن کن شعبوں میں تعاون کی پیشکش کی جا سکتی ہے۔

بین الاقوامی تعاون کی جرمن تنظیم ’جی آئی زیڈ‘ کے ڈائریکٹر ہنس یوآخم پروئس کہتے ہیں کہ ان کی تنظیم نے ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے اپنی نئی حکمت عملی تیار کی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ’’بین الاقوامی ترقیاتی امداد پر بھروسہ کرنے والے ممالک کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہوتی جا رہی ہے‘‘ ۔

Entwicklungshelfer Fußball – WM in Südafrika am 24.9.
تصویر: Philipp-Lahm-Stiftung

بین الاقوامی تعاون کی جرمن تنظیم کے سابق کارکناں کا کہنا ہے کہ اس نئی حکمت عملی کا مقصد ترقیاتی امداد کو کاروباری بنیادوں پر تشکیل دینے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ’جی آئی زیڈ‘ کے ڈائریکٹر پروئس کے بقول وقت کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک کی جانب سے مطالبات میں بھی تبدیلی آ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب ان کا واسطہ تعلیم یافتہ لوگوں سے زیادہ پڑتا ہے۔ ’’اب ہم سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ ہم کنویں کھودیں گے بلکہ اب فراہمی اور نکاسی آب کے مکمل نظام کی بات کی جاتی ہے۔ طبی مرکز کے بجائے ہم سے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ صحت سے متعلقہ پورا نظام کیسے کام کرتا ہے اور کس طرح ہیلتھ انشورنس کی جاتی ہے۔

پروئس مزید کہتے ہیں کہ ان کے ادارے کی کامیاب سرگرمیوں کی وجہ سے ترقیاتی شعبے کے مطالبات میں تبدیلی آئی ہے۔1963ء میں سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے دورہ برلن کے بعد جرمن ڈیویلمپنٹ سروس ’ڈی ای ڈی‘ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس مقصد کے لیے 1964ء میں ترقیاتی شعبے کے پہلے 110 کارکنوں نے تنزانیہ، لیبیا، افغانستان اور بھارت کا دورہ کیا تھا۔1994ء تک ڈی ای ڈی نے 10 ہزار سے زائد تربیت یافتہ لوگوں کو مختلف خدمات کے لے بیرون ملک بھیجا۔ تاہم یہ سروس اپنی پچاسویں سالگرہ نہ منا سکی۔ کیونکہ دو سال قبل یہ ادارہ تکنیکی تعاون کی جرمن تنظیم جی ٹی زیڈ اور تربیت فراہم کرنے والے ادارے انوینٹ میں ضم ہو چکا ہے۔