ترک اسرائیلی تعلقات: ’عالمی تفتیشی کمیشن لازمی‘
7 جون 2010ایران، فلسطینی خود مختار انتظامیہ اور شام کی اعلیٰ قیادت غزہ جانے والے ایک امدادی بحری قافلے کے خلاف ایک ہفتہ قبل اسرائیلی دستوں کی خونریز کارروائی کے بعد علاقائی سطح پر پائی جانے والی صورتحال اور عدم استحکام کے بارے میں مذاکرات کر رہے ہیں۔ ترکی کے ایماء پر منعقد ہونے والے اس اجلاس میں فلسطینی صدر محمود عباس، ان کے ایرانی ہم منصب محمود احمدی نژاد، شامی صدر بشارالاسد اور افغان صدر حامد کرزئی کے علاوہ روسی وزیر اعظم ولادیمیر پوتن اس ایشیائی خطے میں اعتماد سازی کی فضا ہموار کرنے کے لئے شریک ہو رہے ہیں۔ استنبول منعقدہ اس دو روزہ اجلاس میں نو ممالک کے سربراہان مملکت حصہ لے رہے ہیں۔ ان مذاکرات کا مقصد گزشتہ ہفتے غزہ کی ناکہ بندی توڑنے کی کوشش کرتے ہوئے اور فلسطینیوں کے لئے امدادی سامان لے جانے والے ’فلوٹیلا‘ کے خلاف اسرائیلی فوجی کارروائی کی مشترکہ طور پر مذمت کرنا اور اسرائیل پر زور دینا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی طرف سے پیش کردہ اس حملے کی تحقیقات کے لئے کثیرالملکی کمیشن کے قیام کی تجویز قبول کرے۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے استنبول میں ترک صدر عبداللہ گُل سے ملاقات کے دوران اس امدادی فلوٹیلا کے خلاف اسرائیلی فوجی کارروائی کے نتیجے میں نو ترک باشندوں کی ہلاکت پر دلی افسوس کا اظہار کیا۔ محمود عباس ترکی کے اس اجلاس کے بعد امریکہ کے لئے روانہ ہو جائیں گے ۔ واشنگٹن میں عباس امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات کریں گے۔ ترک صدر آج پیر کی سہ پہر ایران اور شام کے صدور سے علیحدہ علیحدہ دوطرفہ مذاکرات کریں گے۔ پیرکواستنبول منعقدہ اس سیکیورٹی سمٹ کے موقع پر پاکستان، افغانستان اور ترکی کے وزرائے خارجہ نے بھی بند کمرے میں ایک ملاقات کی۔ ان سہ فریقی مذاکرات کو سن 2007 ء میں ترکی کی ثالثی میں مسلم انتہا پسندی کے شکار پڑوسی ممالک پاکستان اور افغانستان کے مابین پائے جانے والے اختلافات کو دور کرنے کے ضمن میں شروع کی جانے والی پیش قدمی کی ایک کڑی سمجھا جا رہا ہے۔ بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی اس تین ملکی بات چیت میں آج افغان وزیر خارجہ ظلمے رسول، ان کے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی اور مہمان ملک ترکی کے وزیر خارجہ احمد داؤدتوگلو نے حصہ لیا۔
ترکی کا شمار مسلم دنیا میں اسرائیل کے سب سے قریبی ساتھی ملک میں ہوتا تھا۔ تاہم امدادی فلوٹیلا کے واقعے کے بعد سے دونوں ملکوں کے مابین غیر معمولی کشیدگی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ انقرہ حکومت نے کہا ہے کہ وہ تل ابیب کے ساتھ عسکری اور تجارتی روابط کم کر دے گی اور توانائی کے شعبے میں دو طرفہ منصوبوں کو بھی ترکی کی طرف سے ملتوی کرنے کی دھمکی دی گئی ہے نیز ترک حکومت نے اسرائیل سے گزشتہ ہفتے غزہ کی طرف رواں امدادی قافلے کے خلاف فوجی کارروائی پر معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ بصورت دیگر ترکی اسرائیل کے ساتھ تمام تر تعلقات منقطع کر لے گا۔ پیر سے استنبول میں شروع ہونے والی سمٹ میں اسرائیل کو بھی مدعو کیا گیا تھا، تاہم ترک وزارت خارجہ کے مطابق تل ابیب حکومت کی نمائندگی کے لئے محض ترکی میں متعین اسرائیلی سفیر کی شرکت متوقع ہے۔
دریں اثناء پیر کے روز اسرائیل نے غزہ کے علاقے سے ناکہ بندی ختم کروانے کی کوشش میں ہنوز مصروف کارکنوں کے ایک گروپ کو زبردستی علاقے سے نکال باہر کر دیا۔ اسرائیل پر عالمی برادری کی طرف سے فلوٹیلا حملے کی غیر جانب دار اور شفاف تفتیش کرانے کے ضمن میں دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یورپی یونین خاص طور سے برطانیہ اور فرانس کا ماننا ہے کہ اسرائیل کو ان تحقیقات پر رضا مند ہو جانا چاہئے۔ فرانسیسی صدر نکو لا سارکوزی نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے گزشتہ روز اتوار کو براہ راست یہ مطالبہ کیا، جس کی تصدیق اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے بھی کر دی تھی جبکہ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے اپنے فرانسیسی ہم منصب بیرنارڈ کوشنئر کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا، ’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ غیر جانب دار اور قابل بھروسہ چھان بین نا گزیر ہے، جس میں عالمی برادری کا اہم کردار ہونا چاہئے۔‘
ادھر اسرائیلی حکام نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی طرف سے فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کی تفتیش کے لئے کثیر الملکی کمیشن کے قیام کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر مائیکل اورین نے امریکی ٹیلی وژن چینل فوکس نیوز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک انٹرنیشنل انکوائری پر راضی نہیں ہے کیونکہ اسرائیل اپنی فوج کے بارے میں تحقیقات کرانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور اُسے اس کا حق بھی حاصل ہے۔ آج پیر کو امریکی نائب صدر جو بائیڈن بحیرہء احمر کے خوبصورت سیاحتی مقام شرم الشیخ میں مصری صدر حُسنی مبارک سے ملاقات کر رہے ہیں جس کا مقصد اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین بڑھتے ہوئے تنازعات اور ان کے خطے پر مرتب ہونے والے اثرات پر بات چیت کرنا ہے۔
دریں اثناء اسرائیلی فوج نے پیر کی صبح غزہ کے ساحلی علاقے میں ایک کشتی پر سوار چار فلسطینیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اسرائیلی فوج کے مطابق غوطہ خوری کے لباس میں ملبوس یہ چاروں فلسطینی مبینہ طور پر عسکریت پسند تھے، جو اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔
رپورٹ: کشورمصطفےٰ
ادارت: مقبول ملک