ترک باشندوں کی جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستوں میں اضافہ
9 اگست 2016جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرین اور ترک وطن (BAMF) کے مطابق رواں برس کے پہلے چھ ماہ میں جتنے ترک باشندوں نے سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں، اتنی گزشتہ پورے برس میں دی گئی تھیں۔ اس محکمے کے مطابق رواں برس جون تک ترک شہریت کے حامل افراد کی جانب سے جرمنی میں سیاسی پناہ کی کل 17 سو 19 درخواستیں جمع کرائی گئی، جب کہ گزشتہ پورے برس میں یہ تعداد 1767 رہی تھی۔
وفاقی دفتر برائے مہاجرین اور ترک وطن کے ترجمان تھوماس رِٹر کے مطابق سیاسی پناہ کے درخواست دہندہ ترک شہریوں میں سے 88 فیصد یعنی 1510 افراد کا تعلق کرد علاقوں سے ہے۔
فی الحال یہ بات واضح نہیں ہے کہ کرد علاقوں سے ہجرت کر کے جرمنی آنے والوں میں سے کتنے افراد ایسے ہیں، جو کرد اکثریتی علاقوں میں ترک فوج کے جاری آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ رِٹر کے مطابق مہاجرت کی وجہ اور کرد علاقوں میں تشدد کے واقعات ان اعداد و شمار کا حصہ نہیں ہے۔
ترکی کے جنوب مشرقی علاقوں میں گزشتہ دو دہائیوں سے پرتشدد واقعات رونما ہوتے رہے ہیں، تاہم گزشتہ برس جولائی میں کرد عسکریت پسند جماعت کردستان ورکرز پارٹی کی جانب سے دو سالہ فائر بندی کے خاتمے کے اعلان کے بعد ان علاقوں میں بدترین تشدد دیکھا ہے۔ دوسری جانب ترک حکومت نے بھی عسکریت پسند کردوں کے خلاف ایک بڑا فوجی آپریشن شروع کر رکھا ہے، جس میں اب تک سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں۔ کردستان ورکرز پارٹی کے خلاف ترک فوج شمالی عراقی علاقوں میں بھی فضائی حملے کرتی آئی ہے۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد اس میں مبینہ طور پر ملوث ہونے والے افراد کے خلاف ترک حکومت کا سخت ترین کریک ڈاؤن بھی جاری ہے، تاہم BAMF کی جانب سے یہ نہیں کہا گیا کہ آیا یہ معاملہ بھی آئندہ ترک شہریوں کی جانب سے سیاسی پناہ کی درخواستوں میں اضافے کا سبب بنے گا۔
جرمنی میں سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی مدد کرنے والی تنظیم ’پرو ازیل‘ کے ڈائریکٹر برائے یورپی امور کارل کوپ کا تاہم کہنا ہے، ’’ترکی میں جاری ڈرامائی معاملات کے تناظر میں ہمیں سیاسی پناہ کے مزید متلاشیوں کے جرمنی اور یورپ پہنچنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ترکی سے ہجرت کر کے یورپ پہنچنے والوں میں زیادہ تر کرد، صحافی، دانشور اور انسانی حقوق کے کارکنان ہو سکتے ہیں۔