ترک ’بلیک میل کے باعث سرخ لکیر‘ کھینچنا پڑی، ڈچ وزیر اعظم
12 مارچ 2017ہالینڈ کے شہر روٹرڈیم سے اتوار بارہ مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق یورپی یونین کے رکن اس ملک میں ترک نژاد باشندوں کی ایک سیاسی ریلی سے خطاب کرنے کے معاملے پر دونوں ملکوں کے مابین جو شدید کشیدگی پیدا ہو چکی ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈچ سربراہ حکومت رُٹے نے آج کہا کہ اس معاملے میں وہ حتمی اقدام پر مجبور ہو گئے تھے۔
مارک رُٹے کے بقول ان کی حکومت نے دو ترک وزراء کو روٹرڈیم میں سیاسی مہم کے لیے ہالینڈ میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے اس لیے انکار کر دیا کہ انقرہ حکومت نے ہالینڈ کو اس کے خلاف پابندیاں لگا دینے کی دھمکیاں دی تھیں۔
ہالینڈ سے ترک وزیر کی بےدخلی کے بعد مظاہرے، کشیدگی میں اضافہ
ہالینڈ نے ترک وزیر خارجہ کے طیارے کو لینڈنگ سے روک دیا
ترکی کا ریفرنڈم، آسٹریا اور جرمنی میں سیاسی مہم میں مشکلات
ڈچ وزیر اعظم نے کہا، ’’اس طرح کی بلیک میلنگ کے ماحول میں ہم کسی کے ساتھ مل کر کیسے کام کر سکتے ہیں۔‘‘ ہالینڈ نے کل ہفتے کے روز پہلے ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو کے طیارے کو روٹرڈیم اترنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد خاندانی امور کی ترک وزیر کو بھی، جو ترک وزیر خارجہ کو اجازت نہ ملنے کے بعد روٹرڈیم جانا چاہتی تھیں، کہہ دیا گیا تھا کہ ڈچ حکومت نہیں چاہتی کہ وہ ہالینڈ آئیں۔
مارک رُٹے نے اس بات پر بہت حیرانی کا اظہار کیا کہ جب ترک خاتون وزیر فاطمہ بتول کایا کو بذریعہ ہوائی جہاز ہالینڈ آنے کی اجازت نہ دینے سے قبل از وقت ہی مطلع کر دیا گیا تھا، تو بھی انہوں نے جرمنی سے بذریعہ کار روٹرڈیم جانے کا فیصلہ کیا۔
ترک وزیر فاطمہ بتول کایا روٹرڈیم پہنچ گئی تھیں، جہاں ڈچ حکام نے انہیں ترک قونصل خانے کے سامنے ریلی سے خطاب کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ بعد ازاں سماجی امور کی اس ترک وزیر کو ڈچ پولیس نے اپنی حفاظت میں ہالینڈ سے بے دخل کر کے واپس جرمنی بھیج دیا تھا۔ اب یہ وزیر واپس ترکی پہنچ چکی ہیں۔
اس حوالے سے ڈچ وزیر اعظم رُٹے نے کہا کہ جب ان کی حکومت کو ترک وزراء کو آنے سے روکنے پر مجبور کر دیا گیا، ’’تو پھر ہمیں ایک سرخ لکیر کھینچنا پڑ گئی۔‘‘