1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک سیاسی نظام میں سلطنت عثمانیہ کے بعد کی سب سے بڑی تبدیلی

شمشیر حیدر
12 فروری 2017

ترکی میں انتخابات کے محکمے نے سولہ اپریل کو ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا ہے۔ اس ریفرنڈم میں ترک عوام ملک میں پارلیمانی نظام ختم کر کے صدارتی نظام نافذ کرنے سے متعلق فیصلہ دیں گے۔ ایردوآن صدارتی نظام کے خواہش مند ہیں۔

https://p.dw.com/p/2XQfR
Türkei Erdogan Unterstützer in Istanbul auf dem Taksim Platz
تصویر: Reuters/B. Ratner

خلافت عثمانیہ کا دور ختم ہونے کے بعد وجود میں آنے والی جدید ترک ریاست کے سیاسی نظام میں سب سے بڑی تبدیلی کے لیے یہ ریفرنڈم کرایا جا رہا ہے۔ اس ریفرنڈم میں ترک عوام ملک میں صدارتی نظام نافذ کرنے کے حق اور مخالفت میں ووٹ ڈالیں گے۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن ملک میں موجودہ پارلیمانی جمہوری نظام ختم کر کے صدارتی جمہوری نظام قائم کرنے کی خواہش کا برملا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ایردوآن کا یہاں تک کہنا ہے کہ ترکی کے سیاسی نظام کی مخالفت کرنے والے ترکی کے دشمن ہیں۔

سیاسی تبدیلی کے بعد ترک صدر کو صدارتی حکم نامے جاری کرنے، ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے، وزراء اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی تقرری کرنے جیسے اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔ اس تبدیلی کے بعد ممکنہ طور پر موجودہ صدر ایردوآن نیٹو کی اس رکن اور یورپی یونین میں شمولیت کی خواہاں ریاست کی باگ ڈور سن 2029 تک اپنے ہاتھوں میں رکھ سکیں گے۔

Erdogan auf goldenem Thron
ایردوآن صدارتی نظام کے خواہش مند ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Dridi

ایردوآن کے حامیوں کی رائے میں ترکی میں سکیورٹی کی موجودہ صورت حال، عراق اور شام جیسے ہمسایہ ممالک میں عدم استحکام، داعش اور کرد جنگجوؤں سے لاحق خطرات کے تناظر میں سیاسی نظام کی تبدیلی ملکی استحکام اور بے یقینی کی کیفیت کے خاتمے کی ضامن ہے۔

دوسری جانب مخالفین کو خدشہ ہے کہ صدارتی نظام سے ملک میں آمریت کا خدشہ ہے۔ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے پہلے ہی ہزاروں عام شہری، اساتذہ، صحافی، اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے ملازمین زیر حراست ہیں۔

ایردوآن اس ریفرنڈم میں عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ انہوں نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ سیاسی نظام میں تبدیلی نہ لانے کا فائدہ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) سمیت دیگر ملک دشمن قوتوں کو پہنچے گا۔ حکومت کے حامی ایک تھنک ٹینک کے اہتمام کردہ ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایردوآن کا کہنا تھا، ’’سیاسی تبدیلی کی مخالفت کون کر رہا ہے؟ پی کے کے مخالفت کر رہی ہے۔ وہ لوگ جو اس ملک کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں، وہ مخالفت کر رہے ہیں اور وہ لوگ مخالفت کر رہے ہیں جو ترک قومی پرچم کے خلاف ہیں۔‘‘

ایردوآن کا کہنا تھا کہ موجودہ پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے اور گزشتہ 93 برسوں کے دوران جدید ترک جمہوریہ میں 65 حکومتیں بنیں۔ اوسطاﹰ ایک حکومت صرف 16 مہینے قائم رہی۔

ترکی میں اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتیں، سی ایچ پی اور ایچ ڈی پی سیاسی نظام میں تبدیلی کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی سے ملک میں طاقت کا توازن ختم ہو جائے گا اور پہلے ہی سے طاقت ور ایردوآن کا اثر و رسوخ مزید بڑھ جائے گا۔

ایردوآن کی ہر تقریر کی طرح کل ہفتے کے روز کی گئی تقریر کو بھی ملک کے تقریباﹰ سبھی نشریاتی اداروں نے براہ راست نشر کیا۔ سی ایچ پی کے سربراہ نے انقرہ میں صحافیوں سے کی گئی اپنی ایک گفت گو میں کہا، ’’یہ ریفرنڈم شفاف طریقے سے نہیں ہو گا۔ ہمیں معلوم ہے کہ ایردوآن کا حامی میڈیا اپوزیشن جماعتوں کا موقف عوام تک نہیں پہنچائے گا اور عوام کو یہ تاثر دیا جائے گا کا ہم ریاست کے خلاف سرگرم ہیں۔‘‘

ترک اخبار ’جمہوریت‘ کے مطابق اپوزیشن جماعت ایم ایچ پی کی ایک اہم خاتون سیاست دان میرائل اکشنر ہفتے کے روز اپنے حامیوں سے خطاب کرنے لگیں تو ہوٹل کی انتظامیہ نے، جو ایردوآن کی حامی تھی، بجلی بند کر دی جس کے باعث اکشنر کو میگا فون کے ذریعے اپنے حامیوں سے خطاب کرنا پڑا۔