ترک مذہبی اداروں کے بچوں سے جنسی زیادتی، پورا ملک سکتے میں
20 اپریل 2016ترک دارالحکومت انقرہ سے بدھ بیس اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ان واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد پورے ملک میں ایک سکتے کی سی کیفیت ہے اور ایسے الزامات بھی سننے میں آ رہے ہیں کہ ان مبینہ جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔
اس مقدمے کی آج سے شروع ہونے والی عدالتی سماعت کے دوران پہلے روز کی کارروائی بند کمرے میں مکمل کی گئی جبکہ کم عمر لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے مرتکب ملزم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس وقت اس کی عمر 54 برس ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی نے لکھا ہے کہ ملزم پر جن لڑکوں سے جنسی زیادتیوں کے الزام عائد کیے گئے ہیں، ان کی عمریں 10 اور 12 برس کے درمیان ہیں اور ان کی تعداد دس بنتی ہے۔ ملزم نے ان بچوں سے مبینہ جنسی زیادتیاں اس وقت کیں، جب وہ دو مختلف مذہبی اداروں کے قائم کردہ بورڈنگ ہاؤسز میں مقیم تھے اور ملزم کا کام ان بچوں کی دیکھ بھال تھا۔
انقرہ سے موصولہ رپورٹوں میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ یہ دو بورڈنگ ہوم ایسی مذہبی تنظیموں کے قائم کردہ ہیں، جن میں سے ایک فاؤنڈیشن کا تعلق مبینہ طور پر ترکی میں حکمران جماعت سے بتایا جاتا ہے۔
اس بارے میں ترکی کی خاندانی امور کی خاتون وزیر سیما رمضان اولُو کے ایک حالیہ بیان کے خلاف کئی سماجی حلقوں نے احتجاج بھی کیا تھا۔ سیما رمضان اولُو نے کہا تھا کہ یہ جنسی حملے یا زیادتیاں ’اپنی نوعیت کا واحد واقعہ‘ تھے۔ خاتون وزیر نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ سیاسی اپوزیشن جان بوجھ کر حکومت سے تعلق رکھنے والی ایک فاؤنڈیشن کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس بیان کے بعد اس ترک وزیر کے خلاف انقرہ کی قومی پارلیمان میں اپوزیشن کی طرف سے ایک مذمتی قرارداد بھی پیش کی گئی تھی لیکن پارلیمانی ارکان کی کافی تائید نہ ملنے کی وجہ سے یہ قرارداد ناکام رہی تھی۔
اس پارلیمانی قرارداد میں اپوزیشن نے الزام لگایا تھا کہ خاندانی امور کی وزیر سیما رمضان اولُو ملک میں خواتین اور بچوں پر تشدد اور ان سے زیادتیوں کو روکنے کے سلسلے میں اپنے وزارتی فرائض میں غفلت کی مرتکب ہوئی تھیں۔