1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک وزیراعظم ایردوآن میرکل کو قائل نہیں کر سکے، نینا ویرک ہوئیزر

نینا ویرک ہوئیزر / عدنان اسحاق5 فروری 2014

ڈوئچے ویلے کی تبصرہ نگار نینا ویرک ہوئیزر کے بقول دورہ جرمنی کے دوران ایسا محسوس ہوا کہ ترک وزیر اعظم کے لیے یورپی یونین کی رکنیت کے مقابلے میں اُن کا اپنا سیاسی مستقبل زیادہ اہم تھا۔

https://p.dw.com/p/1B2w1
تصویر: picture-alliance/AP

وئچے ویلے کی تبصرہ نگار نینا ویرک ہوئیزر لکھتی ہیں کہ دورہ جرمنی کے دوران ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن بڑے شوق سے ایک ایسے چچا یا تایا کا کردار ادا کرتے ہیں، جسے اپنے بیرون ملک مقیم حامیوں کا بہت خیال ہے اور جو انہیں اُن کے حقوق کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔ اگر ان کے حامیوں کو جرمن معاشرے میں مل جل کر رہنے میں کوئی مسئلہ ہو تو ایردوآن برلن حکومت سے اس کی برملا انداز میں شکایت کرتے ہیں۔ اِس حوالے سے اُن کے ایک بیان کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا تھا کہ انضمام انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے۔ جرمنی میں ترک نژاد بچوں کو لازمی طور پر پہلے ترک زبان سیکھنی چاہیے۔ تاہم اس مرتبہ ایردوآن نے انضمام سے متعلق پالیسیوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا بلکہ انہیں سراہا۔ ویرک ہوئیزر کے بقول مطلق العنان سیاستدان ایردوآن کوآج کل دیگر معاملات کے مقابلے میں اپنے سیاسی مستقبل کی فکر زیادہ ہے اور اسی وجہ سے برلن میں ان کا انداز انتہائی مصالحتی تھا۔

Erdogan / Berlin / Anhänger / Tempodrom
اگر موسم گرما میں ہونے والے انتخابات میں ایردوآن وزارت عظمی کے امیدوار بنتے ہیں، تو انہیں بیرون ملک رہنے والے ترک شہریوں کے ووٹوں کی بھی ضرورت ہو گیتصویر: picture-alliance/dpa

بے شک ایردوآن ترکی کی سب سے طاقت ور شخصیت ہیں اور ملکی پارلیمان میں ان کی قدامت پسند جماعت’اے کے پی‘ کی اکثریت بھی ہے تاہم حکومتی حلقوں میں بدعنوانی کے واقعات اور ایردوآن کی پولیس اور ملکی عدلیہ کے خلاف کارروائیوں نے اُن کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ ویرک ہوئیزر لکھتی ہیں کہ یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے جاری مذاکرات انتہائی پیچیدہ ہیں اور اکثر انقرہ حکومت کے قول اور فعل میں تضاد دکھائی دیتا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ترک معاشرے کو جمہوری انداز میں مزید ترقی دینے کے حوالے سے ایردوآن کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

2003ء میں برسراقتدار آنے کے بعد سےکامیابیوں کے عادی وزیراعظم کو صرف انتخابی فتوحات ہی ملتی رہی ہیں۔ اب اگر موسم گرما میں ہونے والے انتخابات میں ایردوآن وزارت عظمی کے امیدوار بنتے ہیں، تو انہیں بیرون ملک رہنے والے ترک شہریوں کے ووٹوں کی بھی ضرورت ہو گی۔ یورپ میں ترک باشندوں کی سب سے بڑی تعداد جرمنی میں آباد ہے اور اِن میں سے زیادہ تر ایردوآن کے حامی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اِن میں سے تقریباً ایک ملین ترک شہری ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ اس بار برلن میں ایردوآن نے بڑے فخر سے کہا کہ جرمنی میں سات مقامات پر ترک باشندے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں۔

ڈوئچے ویلے کی تبصرہ نگار نینا ویرک ہوئیزر کے بقول دورہ جرمنی کے دوران ایردوآن نے یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کا تذکرہ سرسری انداز میں کیا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ صرف فرض ادا کرنے کے لیے ایسا کر رہے ہوں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ شاید اسی وجہ سے وہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو بھی اپنے موقف کا قائل نہ کر سکے۔