ترکی آرمینیا مفاہمت
11 اکتوبر 2009
سفارت کاروں کا خیال ہے کہ اِس تاریخی معاہدے سے دونوں ملکوں کے درمیان مصالحتی عمل کو فروغ ملے گا اور ایک صدی پر پھیلی کشیدگی اور بدگمانی کی فضا کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ معاہدے پر ترک وزیر خارجہ احمد داؤد اوگلو اور آرمینیا کے وزیر خارجہ ایڈورڈ نالبندیان نے دستخط کئے۔ ہفتے کے روز ہونے والی تقریب کی ابتدا بھی ثالثی کا فریضہ سرانجام دینے والے ملک سوئٹزر لینڈ کی وزیر خارجہ مِش لِین کالمی رے نےکی۔
معاہدے پر دستخط سے قبل آرمینیا کے اعتراضات کے بعد خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ شاید یہ معاہدہ طے نہ پا سکے لیکن آخری لمحات میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی کاوشوں سے پیدا شدہ رکاوٹ دور ہو گئی۔ آرمینیا کو تقریب میں ترک وفد کی جانب سے کی جانے والی تقریر پر اعتراض تھا۔
امکاناً آرمینیائی وفد کے ذہن میں پیچھے ملک میں معاہدے کے حوالے سے مظاہروں کی شدت بھی موجود تھی۔دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اور منافرت کی وجہ پہلی عالمی جنگ کے دوران ترکی میں آباد آرمینیائی باشندوں کا قتل عام بتائی جاتی ہے۔ آرمینیا کو یقین ہے کہ اِس قتلِ عام میں اُس وقت کی سلطنتِ عثمانیہ کے وزراء مکمل طور پر ملوث تھے۔ آرمینیا کا یہ پرانا مطالبہ ہے کہ ترکی پہلی عالمی جنگ کے دوران آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کا اعتراف کرے جبکہ اب تک ترکی کی حکومتوں، اشرافیہ اور محققین کا موقف یہ رہا ہے کہ وہ جنگ کا زمانہ تھا، جس کے دوران آرمینیائی ہی نہیں، خود ترک باشندے بھی ہلاک ہوئے۔ آرمینیا کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی اِس معاہدے کو اپنے ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔
اِس سمجھوتے کو عالمی سطح پر انتہائی اہمیت دی گئی تھی اور اسی باعث امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ ساتھ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف بھی زیورخ میں موجود تھے۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کے چیف خاویئر سولانہ کی نمائندگی سلووانیہ کے وزیر خارجہ کر رہے تھے۔ معاہدے پر دستخط ہونے پر یورپی یونین کے خیر مقدمی بیان میں کہا گیا کہ اب دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ اور کشیدگی کی فضا میں کمی پیدا ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔
سوئٹزرلینڈ کی ایک سالہ مسلسل مشاورت اور ثالثی کے باعث دونوں ملک اِس بات پر راضی ہوئے کہ وہ ایک دوسرے کے دارالحکومتوں یعنی انقرہ اوریریوان میں سفارت خانے قائم کرنے کے ساتھ ساتھ سرحدیں بھی کھولیں تاکہ عوامی آمدورفت سے حکومتوں کے درمیان بھی بہتر تعلقات استوار ہوسکیں۔ ابھی دونوں ملکوں کے پارلیمانی اداروں کی طرف سے اِس معاہدے کی توثیق باقی ہے۔ اس کے بعد ہی یہ معاہدہ نافذ العمل ہو سکے گا۔ اِس کے علاوہ سن اُنیس سو پندرہ میں پہلی عالمی جنگ کے دوران آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کی تحقیق کے لئے دونوں ملکوں کے تاریخ دانوں پر مشتمل کمیشن بھی قائم کیا جائے گا۔ آرمینیا کا خیال ہے کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد پندرہ لاکھ آرمینیائی باشندوں کا قتلِ عام ہوا تھا جبکہ ترکی اتنی بڑی تعداد کو غلط قرار دیتا ہے۔ ترک محققین کے خیال میں ہلاک ہونے والے آرمینیائی باشندوں کے تعداد دو لاکھ کے قریب ہے۔
ہفتہ کو زیورخ میں دستخط کے بعد ترکی اور آرمینیا کے درمیان ورلڈ کپ کوالیفائنگ مرحلے کے میچ کا دوسرا مرحلہ بھی شیڈیول ہے۔ اِس میچ کو بھی سفارتی تعلقات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ ترکی کے صدر عبداُللہ گُل نے آرمینیا کے صدر Serzh Sarkisian کو میچ دیکھنے کے لئے مدعو کر رکھا ہے۔ یہ میچ آئندہ بدھ کو کھیلا جائے گا۔ اس سے قبل ترکی کی فٹ بال ٹیم جب اپنا میچ کھیلنے یریوان گئی تھی تو ترک صدر وہ میچ دیکھنے آرمینیا گئے تھے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اِس معاہدے سے یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کی خواہش کو تقویت ملنے کے ساتھ قفقاذ کے خطے میں اُس کے اثر و رسوخ میں بھی اضافے کا امکان ہے۔ اِن کا مزید کہنا ہے کہ معاہدے سے جہاں ترکی اور آرمینیا کے درمیان مصالحتی عمل کا آغاز ہو گا، وہیں عالمی سطح پر اُن کے وقار میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔
آرمینیا کو ترکی کے علاوہ آذربائیجان کے ساتھ بھی نگورنو کاراباخ کے علاقے پر تنازعے کا سامنا ہے۔ امکان ظاہر کیا جاتا ہے کہ ترکی کے ساتھ سفارتی روابط کی بحالی کے بعد اِس تنازعے کو بھی مکمل طور پر حل کیا جا سکے گا۔ ترکی نے نگورنو کاراباخ کے تنازعے پر سن 1993ء میں آرمینیا کے ساتھ ملنے والی اپنی سرحد بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تبھی سے سفارتی تعلُقات بھی منقطع چلے آ رہے ہیں۔ آذربائیجان کے ترکی کے ساتھ گہرے سماجی، ثقافتی، لسانی اور نسلی روابط ہیں۔