ترکی اور اسرائیل: اسٹریٹجک تعلقات بحال؟
27 مارچ 2013اسرائیل کے ترکی سے معذرت کرنے کے بعد صدر شیمون پیریز نے اتوار کے روز ترک ٹیلی وژن کو دیے گئے ایک انٹرویومیں کہا کہ وہ ترک اسرائیل بہتر تعلقات کے حق میں ایک ہزار دلائل پیش کرسکتے ہیں۔ پریز نے کہا کہ اس عمل کے بعد ترکی، اسرائیل تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔ انہوں نے اس بات کا دفاع کیا کہ دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کا ماحول اب ماضی بن گیا ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نےگزشتہ دنوں ترکی سے معافی مانگتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ 2010ء کے بحری امدادی قافلے کے ہلاکت خیز واقعے کے بعد اب ترکی اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات پھر سے مکمل طور پر بحال ہو رہے ہیں۔ نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق اُنہوں نے مرنے والوں کے لیے زرِ تلافی کا بھی اعلان کیا۔ نیتن یاہو نے کہا تھا کہ اُنہوں نے ٹیلی فون پر اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن کے ساتھ بات چیت کی ہے، جس میں دونوں ملکوں کے تعلقات بحال کرنے پر اتفاقِ رائے کیا گیا ہے۔
انقرہ میں جرمن مارشل فنڈ کے سربراہ اور معروف سیاسی تجزیہ کار Ozgur Unluhisarcikli Fund's نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے اس حالیہ پیش رفت کو خوش آئیند قرار دیا لیکن ان کا کہنا کہ دنوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی اور حا لات معمول پر آنے میں ابھی وقت لگے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی کو اس حوالے سے زیادہ پرجوش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ دنوں حکومتوں کے درمیان ابھی بہت سے تصفیہ طلب معاملات موجود ہیں، دنوں ملکوں کی خارجہ پالیسی کافی حوالوں سے مختلف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صورت حال کتنی بھی بہتر ہوجائے دنوں ملکوں کے درمیان تعلقات فی الحال 1990ء والی سحطح پر نہیں پہنچ سکتے ۔
ترکی کے امور پر مہارت رکھنے والے ایک سابق اسرائیلی سفیر ایلن لائل نے کہا کہ حالیہ بیانات کو شراکت سے زیادہ اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کہنا درست ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک دہائی میں ترکی میں صورت حال بہت تبدیل ہوچکی ہے۔ مرکز سے دائیں جانب جھکاؤ رکھنے والی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) ایک اسلام پسند جماعت ہے اور اس کی اپنی ترجیحات ہیں۔ سابق سفیر کو بھی اس مفاہمتی عمل سے کم توقعات وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا جب تک اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بامعنی پیش رفت نہیں ہو گی، اس وقت تک ترک اسرائیل تعلقات میں بہتری مشکل ہے۔
سابق اسرائیلی سفیر ایلن لائل نے ترک اسرائیل تعلقات میں حالیہ پیش رفت کو امریکی صدر باراک اوباما کا دباؤ قرار دیا، انہوں نے اس مفاہمتی عمل کو اوباما کی فتح سے تعبیر کیا۔ بہت سے تجزیہ نگار اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اوباما کے کردار کے علاوہ شام میں بڑھتی ہوئی خانہ جنگی سے متعلق خدشات نے بھی ترکی اور اسرائیل کو مفاہمت پر مجبور کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ہفتے کے روز اپنے فیس بک پیج پر لکھا تھا کہ اسرائیل اور ترکی، جن دونوں کی سرحد شام کے ساتھ لگتی ہے انہیں شام کے بحران کے حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ پر بات کرنی چاہیے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل اور ترکی کو شام کے مسئلے پر ایک دوسرے سے بات چیت کرنی چاہیے۔
ایلن لائل کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد کا شام تل ابیب اور انقرہ دونوں حکومتوں کے لیے معنی رکھتا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک ایران کا جوہری پروگرام بھی اسرائیل کو ترک کے قریب لے جانے کا باعث بنا ہے، جو اس وقت خطے میں بڑی اہمیت کا حامل ملک ہے۔ دوسری طرف ترکی کے لیے ایران کے جوہری پروگرام کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کی دھمکیاں بھی نہایت اہمیت رکھتی ہیں۔ ایلن لائل کا کہنا ہے کہ ترک اسرائیل تعلقات معمول پر آنے سے خطے میں استحکام آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ اب اسرائیل کی جانب سے ایران کے خلاف فضائی حملے کے امکانات کم ہوگئے ہیں۔
Ayhan Simsek / Greg Wiser,zb/at