ترکی اور جرمنی کے کشیدہ تعلقات، تین سوال تین جواب
10 مارچ 2017
ایسے کیا معاملات پیش آئے جو جرمنی اور ترکی کے درمیان حالیہ کشیدگی کی وجہ بنے؟
تازہ ترین وجہ تو جرمنی کی طرف سے ترک سیاستدانوں کو یہاں آباد ترک باشندوں کی ریلیوں سے خطاب کی اجازت نہ دینا ہے۔ دراصل ترکی میں 16 اپریل کو ایک ریفرنڈم منعقد ہو رہا ہے جس میں وہاں صدارتی نظام لانے کے بارے میں عوامی رائے معلوم کی جانا ہے۔ اس ریفرنڈم کے بارے میں خیال یہی ہے کہ اس کا مقصد صدر رجب طیب ایردوآن کے اختیارات میں اضافہ کرنا ہے۔ جرمنی میں چونکہ قریب 15 لاکھ ایسے ترک باشندے آباد ہیں جنہیں اپنے ملک میں حق رائے دہی حاصل ہے، تو تُرک حکومت کی خواہش ہے کہ اس کے نمائندے یہاں آباد ترکوں کی ریلیوں سے خطاب کریں۔ مگر جرمنی نے یہ اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ اس سے قبل ایک جرمن اخبار ڈی ویلٹ کے ترکی میں نامہ نگار کو فروری کے وسط میں استنبول میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ یہ معاملہ بھی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی وجہ بنا۔
ان تنازعات کے حوالے سے ترکی اور جرمنی کے سربراہان کی طرف سے کیا بیان بازی ہوئی؟
جرمن حکام کی طرف سے ترک سیاستدانوں کو سیاسی اجتماعات سے خطاب کی اجازت نہ دینے پر ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے جرمن حکومت پر 'نازی طریقہ کار‘ اختیار کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس الزام کو انتہائی نا مناسب قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے نامناسب بیان پر سنجیدگی سے کوئی تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔ پھر ترک وزیر خارجہ مولود چاؤش اولو نے منگل کے روز جرمنی کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ جرمنی انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام پر ترکی کو لیکچر دینے کا سلسلہ بند کرے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جرمنی کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا وہ ترکی کو دوست کے طور پر دیکھتا ہے یا دشمن کے طور پر۔ جرمن حکام کا مؤقف یہی ہے کہ آئندہ ترکی کی جانب سے نازی دور سے موازنے کے واقعات دہرائے نہیں جانا چاہییں۔
کیا دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے بھی کوئی کوشش ہو رہی ہے؟
جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریل دونوں ملکوں کے مابین تناؤ کو کم کرنے کی مسلسل کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ دونوں ممالک کے مابین دوستی کی بنیاد کو ختم کرنے کی اجازت کسی بھی صورت نہیں دی جانی چاہیے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی گزشتہ روز کہا کہ ترکی اور جرمنی کے باہمی تعلقات چونکہ کثیرالجہتی اور انتہائی اہم ہیں اس لیے دونوں ریاستوں کے درمیان کشیدگی کو ختم کرنے کی ممکنہ کوشش کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ نیٹو کی رکنیت سے لے کر دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جنگ تک، انقرہ اور برلن کے دوطرفہ روابط اتنے اہم ہیں کہ ان میں دوبارہ تیز رفتار بہتری وقت کا لازمی تقاضا ہے۔